اگر پیکا قانون اس شکل میں رہا تو ایک دن سارے سیاستدان سمیت وی لاگرز جیل میں ہونگے، چیف جسٹس اطہر من الللہ

0
64

اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیکا آرڈیننس کے خلاف مختلف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے پیکا آرڈیننس سیکشن 20 پر عمل روک دیا ہے دفاع نہیں کرسکتا اور وزیر اعظم نے کہا کہ یہ کیسے ہوگیا؟۔ جس چیف جسٹس اطہر من الللہ نے کہا کہ اگر ہتک عزت کو فوجداری بنایا گیا تو سارے سیاست دان، وی لاگرز کو جیل جانا پڑے گا۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے پیکا قانون میں ترمیم پر نئی تجاویز پیش کردیں۔ نئی ترمیم میں اداروں پر تنقید قابل دست اندازی جرم نہ ہو، ٹی وی میڈیا پر پیکا اطلاق نہ ہو، سوشل میڈیا پر کردار کشی صرف چند کیسز میں قابل دست اندازی ہو، گرفتاری اجازت کیلئے بورڈ کی تشکیل اور عدالت یہ معاملہ حکومت کو بھیجے۔

چیف جسٹس اطہر من الللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ
‏کسی کو خاص کر عوامی عہدے والے کو سوشل میڈیا سے پریشان ہی کیوں ہونا چاہئیے، ہر سیاسی جماعت سوشل میڈیا پر سیاسی مخالفین کی کردار کشی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اٹارنی جنرل کے کہا کہ عام شہریوں کی کردار کشی پر بھی محض چند معاملات میں گرفتاری کا اختیار برقرار رہنا چاہئیے۔

‏‏چیف جسٹس اطہر من الللہ اور یو ٹیوبر ایڈوکیٹ اظہر صدیق کا مکالمہ ہوا۔ یوٹیوبر ایڈوکیٹ اظہر صدیق نے عدالت میں کہا کہ توہین عدالت یا کوئی بھی قانون ہو اس پر عمل ہونا چاہئیے جس پر چیف جسٹس اطہر من الللہ نے کہا کہ آپ بھی یوٹیوبر ہیں شکایت پر اندر ہو جائیں گے جس پر یوٹیوبر ایڈوکیٹ اظہر صدیق نے کہا کہ سر میں تیار ہوں، مجھے جیل بھیج دیں۔ اگر پیکا قانون نہیں تو توہین عدالت کا قانون بھی ختم کر دیا جائے اور ایڈوکیٹ اظہر صدیق نے عدالت میں شاؤٹنگ، شور شرابہ شروع کردیا اور بار سینئیر وکلا کے کہنے کے باوجود بھی اظہر صدیق خاموش نہ ہوئے۔

‏چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ڈائریکٹر سائبر کرائم سے سوال کیا 94 ہزار شکایات میں سے اپوزیشن نے بھی کوئی شکایات کیں؟ ان پر بھی کوئی گرفتاری ہوئی؟ اس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے جواب دینے کے بجائے آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔

‏آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیکا کیس کے سماعت کے دوران صحافی ‎رضی بھی توجہ کا مرکز بنے۔ ‏اسلام آباد ہائی کورٹ میں دلچسب صوتحال اس وقت پیدا ہوئی جب تحریک انصاف کے سب سے بدزبان گالم گالوج بریگیڈ کی قیادت کرنے والی خاتون ایم این اے کنول ‎شوزب بھی صحافی ‎رضی دادا کا وڈیو کلپ لے کر اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئیں۔ پرس سے سی ڈی نکال کر اپنی وکیل کو دیتے ہوئے روسٹرم پر آکر کہا رضی دادا میرے بارے میں کہتا ہے کہ میں پرچی والی ایم این اے ہوں اور راضی دادا کا زکر کرتے ہوئے رو پڑی۔


کنول شوزب نے عدالت میں کہا کہ میں ایم این اے کے علاوہ ایک ماں، بیوی اور بیٹی بھی ہوں، میرے بھی حقوق ہیں، میرے خلاف سوشل میڈیا میں کردار کشی کی گئی۔ جس پر چیف جسٹس اطہر من الللہ نے کہا کہ ایف آئی اے نے 90 ہزار شکایتوں میں صرف آپ کی شکایت پر عمل کیا۔ ‏آپ عوامی عہدہ رکھتی ہیں اور کردار کشی کی ذمے دار سیاسی جماعتیں ہیں۔

اٹارنی جنرل بیرسٹر خالد جاوید نے عدالت میں کہا کہ خاتون ایم این اے پر تہمت کی تکلیف صرف خاتون محسوس کر سکتی ہے، ہم مرد نہیں۔ چیف جسٹس اطہر من الللہ نے اٹارنی جنرل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے مخالفین اور ججوں کیخلاف مہم کیلئے سوشل میڈیا سیل بنائے ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من الللہ نے ریمارکس دیے کہ ‏پیکا قانون کیخلاف درخواستوں کو زیر التوا رکھیں گے اور اس قانون پر عملدرآمد روک دیتے ہیں، اتنے میں اٹارنی جنرل تمام فریقین اور حکومت سے مشاورت کے بعد قانون میں مناسب ترمیم کر لینگے۔

چیف جسٹس اطہر من الللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ‏منتخب نمائندے خود کو عوام کے سامنے جوابدہ بناتے ہیں نہ کہ عوام کیخلاف سرکاری اداروں کا استعمال کرتے ہیں،
اگلی سماعت پر حکومت عدالت کو وضاحت دے کہ پیکا قانون کے تحت عوامی عہدیدار کی کردار کشی پر گرفتاری کے اختیار کو یہ عدالت ختم کیوں نہ کر دے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں