بزدار پلس سے زہری پلس تک کا سفر

0
20

تحریر: عبداللہ شاہوانی

عثمان بزدار شریف النفس اور مزاج کی سادگی سے لبریز بلوچ ہیں ان کا نام 2018 کے انتخابات کے بعد اس وقت سامنے آیا جب انہیں عمران خان نے وسیم اکرم پلس کی پہچان دیکر وزیراعلیٰ پنجاب بنادیا اور آج تک انہیں وسیم اکرم پلس کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اب 2024 کے الیکشن میں مبینہ ایک اور نام سامنے آگیا ہے اور یہ نام اس بار پنجاب سے نہیں بلکہ بلوچستان سے نمودار ہوا ہے سامنے آتے ہی اس نام کی بڑی پہچان بھی ہوگئی۔

علی حسن بروہی تعلق نواب شاہ سے ہے تاہم پوری زندگی کراچی میں گزاری۔ انہیں بلوچستان میں سیاست کرنے کی خواہش محسوس ہونے لگی تو اس کے لئے انہیں کراچی سے قریب تر اور سافٹ کارنر حلقے کی تلاش تھی۔ چنانچہ اس سلسلے میں انہیں حب جیسے حلقے سے بہتر حلقہ مل ہی نہیں سکتا تھا اور سیاست کا آغاز یہی سے کرادیا۔ ایک مختصر جدوجہد تاہم تاریخ میں طویل نقوش چھوڑنے والے الیکشن کی صورت میں انہوں نے کامیابی بھی حاصل کی۔ میر علی حسن زہری اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے مزاج اور عقل سلیمہ میں زمین و آسمان کا فرق ہوسکتا ہے تاہم “پلس” کردار میں دونوں کی مشابہت ایک جیسی ہے۔ ایک عمران خان کا پسند تھا تو دوسرا آصف علی زرداری کی پسند ہے۔

میر علی حسن زہری کا ماضی کیسا تھا ہم اس بحث میں نہیں جاتے۔ حال کیسا ہے اور مستقبل کیا ہوگا اس پر تبصرہ کرتے ہیں۔ علی حسن زہری کی پی بی 21 حب سے کامیابی اور بلوچستان اسمبلی حلقے تک رسائی سے موجودہ صوبائی سیٹ اپ میں اگر زلزلہ برپا نہیں ہوا تو کم از کم بے چینی سی ضرور محسوس ہونے لگی ہے ۔بلوچستان اسمبلی میں دیرینہ کہنہ مشق سیاستدان نواب ثناء اللہ خان زہری اور صادق عمرانی کو چھوڑ کر پارلیمانی لیڈر سرفراز بگٹی کا انتخاب کرنے میں پیپلزپارٹی کو اگر کسی کا مشورہ حاصل تھا تو تھوڑی بہت ان کی اپنی بھی خواہش تھی۔ تاہم میر علی حسن زہری کی صورت میں اب اس خواہش کو کسی اور کے مشورے پر قربان کرنے یا کسی اور کی خواہش کو اپنی خواہش پر مقدم رکھنے کی ضرورت بھی نہیں۔ پیپلزپارٹی کی بلوچستان اسمبلی میں نمائندگی اہتمام کے ساتھ پہنچ چکی ہے ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کو جس طرح کابینہ بنانے میں مشکلات پیش آرہی ہیں اور کئی ہفتے گزر چکے ہیں کابینہ نہیں بن رہی ہے ۔احوال کار بتاتے ہیں کہ عثمان بزدار پلس کی آمد سے پریشانیاں کابینہ بنانے والے مشکلات سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ درپیش ہونگی۔ جب تک آصف علی زرداری کی جان میں جان ہے ان کی مفاہمت والی سیاست بھی اسی آب و تاب کے ساتھ زندہ و جاوداں رہیگی۔ سیاست میں جتنا بھی اُتار چڑھائو آجائے تاہم آصف علی زرداری قریب تر اور وفادار ساتھیوں کو بیچ راہ پر نہیں چھوڑتے بلکہ دو قدم آگے نکل کر ان کو اعلیٰ رتبے پر پہنچاکر ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں پہلے سے بیٹھے پیپلزپارٹی اراکین چاہے ان کا پارلیمنٹ میں پہنچنے کا معیار جس پیمانے کا ہو وہ علی حسن زہری کی کامیابی پر بھوتانی برادری کی طرح اگر مکمل طور پر سوگ میں نہیں تو کم از کم کفِ افسوس ضرور مل رہے ہونگے اور کباب میں ہڈی والے محاورے کو بار بار یاد کررہے ہونگے۔

میر علی حسن زہری کے لئے ہاتھ باندھ کر دوسری نشست میں کھڑا رہنا قصہ پارینہ بن گیا۔ علی حسن زہری کا پروٹوکول رد نہیں ہوسکتا ہے اسے ہر صورت پروٹوکول بھی دیا جائیگا اور بلوچستان کیصف اوّل کی قیادت بھی تصور کی جائیگی۔ وہ قبائلی جو میر علی حسن زہری کی کامیابی کا فارم 47 فارم 49 لہرا لہرا کر دکھانے اور شیئر کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کررہے تھے ان کی خوشی بھی دیرپا نہیں اس کامیابی کے بعد وہ سب ثانوی حیثیت اختیار کرچکے ہیں چاہے وہ سیاسی طبقات ہوں یا قبائلی طبقات۔

یاد رہے کہ آصف علی زرداری کے ‘پلس’ سے عمران خان کے ‘پلس’ کا کوئی مقابلہ نہیں آصف علی زرداری وہ استاد ہیں کہ ان کی ہر تخلیق سب سے بڑھ کر انمول ہی ہوتی ہے ۔ بلوچستان میں اب علی حسن زہری کا سکہ چلے گا وہی بولے گا وہی حکم نامہ جاری کریگا نشیب و فراز کے سیاسی مالک بھی وہی ہونگے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں