ایف آئی اے سائبر کرائم کراچی میں انا، اختیارات، اصولوں اور قانون عملداری کی جنگ، انہونا فیصلہ

0
585

کراچی (مدثر غفور) ایف آئی اے سائبر کرائم کراچی میں دو اعلیٰ افسران کے درمیان جاری اختیارات، انا، اصولوں، قانون پر عمل درآمد کرنے اور سرد مہری کی جنگ عروج پر پہنچ گئی اور ادارے میں کام شدید متاثر ہونے سے کئی کیسز زیر التوا ہونے شروع ہوچکے ہیں۔ کراچی سرکل میں افسران پریشانی کا شکار اور دو حصوں میں منقسم ہیں۔ گزشتہ روز ایف آئی اے ترجمان نے ایک حیرت انگیز پریس ریلیز جاری کی کہ گریڈ 20 کے ڈائریکٹر سائوتھ عاصم خان قائم خانی کو گریڈ 19 کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کراچی کا اضافی چارج دے دیا گیا ہے۔ حالانکہ ہمیشہ نچلے گریڈ 19 کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کراچی کا اضافی چارج سونپا جاتا ہے۔

اجنبی کے مطابق اختیارات اور سرد مہری کی جنگ کا آغاز شہزاد حیدر کی بطور ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم کراچی کی تعنیاتی کے کچھ عرصے بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ انھوں نے چارج سنبھالنے کے بعد سنگین شکایتوں کے تناظر میں سرکل میں موجود ڈپٹی ڈائریکٹر احمد زعیم اور کافی عرصے سے تعینات قائم مقام سرکل انچارج اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد اقبال جو گریڈ 17 کا افسر تھا، اس کو گریڈ 18 کے ڈپٹی ڈائریکٹر کا سرکل انچارج بنا رکھا تھا جبکہ سرکل میں کئی ڈپٹی ڈائریکٹر موجود تھے۔ اسی مسئلے پر دونوں افسران میں اختلاف کا آغاز ہوا کیونکہ ایڈیشنل ڈائریکٹر ان دونوں کو کراچی سے ٹرانسفر کرنا چاہتے تھے لیکن ڈائریکٹر عاصم قائم خانی ان دونوں افسران کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ اسی دوران اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل اسحاق جہانگیر جو پولیس سروس سے ڈیپیوٹیش پر ایف آئی اے میں تعینات ہیں انھوں نے کراچی کا تین روزہ دورہ کیا اور بہت سے افسران سے سرکل کے معملات پر بریفنگ لی۔ اس دوران بھی مجوزہ دونوں افسران نے ایک دوسرے کے خلاف الزامات لگائے۔ اے ڈی جی نے واپس اسلام آباد جا کر کئی دنوں تک کوئی کارروائی نہیں کی۔ شہزاد حیدر کی زیادہ تر نوکری اسلام آباد میں رہی انہوں نے اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے زعیم کا تبادلہ حیدرآباد اور اقبال کا سکھر کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ حیرت انگیز طور پر زعیم حیدرآباد میں رپورٹ کر کے دوسرے روز واپس آگئے اور ان کو زبانی حکم پر ڈائریکٹر نے اپنا پرسنل اسٹاف آفیسر (پی ایس او) تعینات کر رکھا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان پر یہ الزام لگا کہ انھوں نے بیرون ملک کورس پر جانے کے لئے غلط حلف نامہ جمع کروایا کہ وہ کبھی کسی کورس پر بیرون ملک نہیں گئے۔ دستاویزی ثبوتوں کے مطابق وہ تین مرتبہ گئے یہ جھوٹا حلف نامہ جمع کروانے پر اصولاً اور قانوناً محکمہ جاتی کارروائی ہونی چاہئے تھی لیکن نہ ڈائریکٹر اور نہ ہی اے ڈی جی نے کوئی نوٹس لیا، نہ ہی سنگین الزام پر کوئی کارروائی ہوئی۔

دوسرے جانب بڑے اختلاف کی وجہ اس وقت شروع ہوئی جب کراچی کے ایک معروف کیٹرنگ سروس کے مالک عامر راجپوت نے سائبر کرائم کراچی کو ایک درخواست دی کہ کچھ عرصہ قبل اس نے اپنے ملتان کے کاروبار کی دیکھ بھال اپنے برادر نسبتی عمران کے حوالے کی۔ کچھ عرصہ بعد اس کی نیت میں فتور آ گیا اور اس نے عامر راجپوت کیٹرنگ کو اپنی ملکیت ظاہر کرنا شروع کر دیا اور تمام کیٹرنگ ٹھیکوں کی رقوم بھی جو کروڑوں میں بنتی ہے وہ بھی خرد برد کرلی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ویب سائٹ بھی ہیک کرلی اور جب بھی کوئی مذکورہ ویب سائٹ کھولتا ہے تو عمران راجپوت کا رابطہ نمبر اس کی دیگر تفصیلات ظاہر ہوتی ہیں نہ کہ عامر راجپوت کی۔

مزکورہ درخواست پر تحقیقات شروع ہوئیں اور شہزاد حیدر نے مقدمہ درج کرنے کی اجازت کا مراسلہ عاصم قائم خانی کو تحریر کیا مگر کافی دنوں تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا بعد میں حیرت انگیز طور پر زبانی یہ حکم دیا گیا کہ ‘یہ مقدمہ یہاں درج نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ ملتان کا معاملہ ہے اور ملزم بھی ملتان میں موجود ہے لہذا تفتیش ملتان ٹرانسفر کر دی جائے۔ ایسا فیصلہ ایف آئی اے کی تاریخ میں نہیں ہوا کہ مدعی کے شہر کے بجائے ملزم کے شہر میں تفتیش منتقل کر دی جائے۔

حال ہی میں سابق ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے نام پر فون پر ایک سرکاری ڈاکٹر سے دس لاکھ اینٹھنے والے کے خلاف اسی سرکل میں مقدمہ درج ہوا۔ رقم راولپنڈی کے بینک سے نکلوائی گئی تو تفتیشی افسر نے راولپنڈی جا کر ملزم کو گرفتار کیا، کراچی منتقل کیا گیا اور رقم بھی وصول کرلی گئی کیونکہ یہ پی ایس پی افسران سے متعلق معاملہ تھا۔ عامر راجپوت کی تحقیقات کا معاملہ طول پکڑتا گیا اور تفتیشی افسران تبدیل ہوتے رہے مگر شہزاد حیدر ایک ہی نکتے پر قائم رہے کہ مقدمہ کراچی میں ہی درج کیا جائے۔ اس پر لیگل کمنٹس لینے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں اے ڈی لیگل، موجودہ تفتیشی افسر انسپکٹر کومل اور دیگر افسران ماسوائے ایڈیشنل ڈائریکٹر موجود تھے۔ دباؤ کے باوجود سب نے متفقہ رائے دی کہ قانون کے مطابق تحقیقات اور مقدمہ کراچی میں ہی درج ہونا چاہیے۔

دوسری طرف عامر راجپوت نے جمعہ کو ڈائریکٹر سے ملاقات کی اور اپنے پاس موجود شہادتوں اور کاغذات کی مدد سے دلائل دیئے کہ مقدمہ کراچی میں ہی درج ہونا ضروری ہے مگر ڈائریکٹر اسی بات پر اصرار کرتے رہے کہ یہ مقدمہ یہاں درج نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی اس منطق میں میٹنگ میں شریک ان کے پی ایس او ڈپٹی ڈائریکٹر احمد زعیم بھی حامی بھرتے رہے اور یہاں تک کہا کہ مقدمہ سائبر کرائم کا بنتا ہی نہیں ہے۔ کافی بحث و مباحثے کے بعد ایک عجیب تجویز عامر راجپوت کو دی گئی کہ اگلے ہفتے مبینہ ملزم عمران کو کراچی بلوا کر دونوں کی سرکل میں میٹنگ کروا دی جائے۔ اس میٹنگ کے بعد دو اہم باتیں رونما ہوئیں ایک تو فورا ایک ٹیم کو ویب سائٹ سروس پروایڈر کے دفتر معلومات حاصل کرنے کے لیے روانہ کیا گیا اور وہاں سے یہی جواب ملا کہ مذکورہ ویب سائٹ کا مالک عامر راجپوت ہی ہے نہ کہ عمران، یہ تصدیق ایس ای سی پی اور ٹریڈ مارک ادارے بھی کر چکے ہیں۔ دوسری بات یہ ہوئی کہ اچانک ایڈیشنل ڈائریکٹر شہزاد حیدر کی طبیعت ‘خراب’ ہو گئی اور وہ 15 دنوں کی رخصت پر چلے گئے، اے ڈی جی نے سرکل میں ڈپٹی ڈائریکٹرز ہونے کے باوجود اضافی چارج ڈائریکٹر کو سونپ دیا ‘گھٹنہ ہمیشہ پیٹ کی طرف ہی جھکتا ہے’۔ اب قرین قیاس یہ ہی ہے کہ ان پندرہ دنوں میں عامر راجپوت کے کیس کا فیصلہ ہو جائے گا۔

واضع رہے کہ اس وقت سرکل کے فیلڈ افسران شدید گو مگوں، تذبذب اور پریشانی کا شکار ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ سرکل میں معمول کی تفتیش بھی انتہائی مشکل ہوگئی ہے اور ہر قانونی معاملے پر بھی ذاتی پسند، ناپسند اور مرضی مسلط کر دی جاتی ہے اور ایسا ایف آئی اے کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں