سنت ابراہیمی-عید قربان کی شان

0
79

تحریر: حمیرا نذیر

غریب و سادہ و رنگیِں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حُسینؓ، ابتدا ہے اسمٰعِیلؑ

تاریخ اسلام، لاکھوں کروڑوں قربانیوں سے بھر پور ہے جس کا آغاز ابراہیم علیہ السلام کی قربانی سے ہوا۔ اس کے بعد ختم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی اپنا تن من دھن دیں اسلام کے لیے قربان کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں اپنوں کی دشمنیاں مول لی، سرداروں کے سامنے ڈٹ کھڑے ہوئے، بڑی بڑی پیشکشیں ٹھکرا دیں لیکن اسلام کی تبلیغ نہ چھوڑی۔ اسی طرح علم اسلام کی سر بلندی کے لیے اہل بیت نے جو قربانیاں دیں، بہادری اور دلیری کی زندہ مثال ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام روئے زمین پر دوسرے پیغمبر تھے۔ جنہوں نے محض اپنے رب کی خوشنودی کے لیے اپنے لخت جگر کی قربانی کرنا قبول کی۔

ایک رات حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا جس میں یہ حکم خداوندی تھا کہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کردو۔ آپ کو یہ خواب کثرت سے آنے لگا تب ہی آپ سمجھ گئے کہ اللہ تعالٰی ان کے بیٹے اسماعیل کی قربانی چاہتے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے یہ معاملہ اپنے ننھے بیٹے کو بتایا تو انہوں نے جواب دیا کہ ابا جان جو آپ کو حکم دیا گیا وہ بجا لائیں۔ اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے۔ اس معصوم بچے کا جواب سن کے آج بھی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اس نا سمجھی میں بھی اللہ سے ایسی لو ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔

یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی

سکھائے کسنے اسماعیل کو آداب فرزندی

یہ سننا تھا کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو لے کر جنگل میں پہنچے اور بیٹے کی آنکھوں پہ پٹی باندھ دی۔ جب آپ علیہ السلام نے ان کے گلے مبارک پہ چھری رکھی تو معجزہ ہو گیا کہ حضرت اسماعیل کی جگہ ایک دنبہ آ گیا اور کہیں سے یہ ندا آئی کی اے ابراہیم!  تو نے خواب سچ کر دکھایا۔ اللہ رب العزت کو ابراہیم علیہ السلام کا یہ عمل اس قدر پسند آیا کہ قیامت تک کے لیے سنت ابراہیمی کو زندہ رکھا۔ آج بھی بہت جوش و خروش سے ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد تازہ کرنے کے لیے جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔

قربانی کرنا ہر صاحب استطاعت پر فرض ہے۔  لیکن ایک بات جو ہمیں ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ دکھاوے سے بچہ جائے، خالص اللہ ک لیے  جانور کو قربان کیا جائے۔ کیوں کہ اکثر اوقات ہم لوگ اچھے سے اچھے جانور کی تلاش سکیں اس لیے ہوتے ہیں کہ فلاں سے ہمارا جانور بہتر ہو۔ جب نیتوں میں فتور آ جائے تو عبادتیں کھوکھلے کھجور کے تنے کی طرح زمیں بوس ہو جاتی ہیں۔  ہمیں چاہیے کہ ہم اس عید پر زیادہ سے زیادہ خوشیاں بانٹیں اور غریبوں، مسکینوں،محتاجوں اور سفید پوشوں تک قربانی کا گوشت پہنچائیں تا کہ وہ بھی عید قربان سے لطف اندوز ہو سکیں۔ کیونکہ محبتیں عام کرنے والوں کو  لوگ رہتی دنیا تک یاد رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں