چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ، لاڈ پیار کی لازوال داستان

0
66

تحریر: محمد سمیع شہزاد

پاکستان کے چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال ملک کی عدالتی تاریخ کے واحد جج ہوں گے جنھیں ان کے عدالتی فیصلوں سے زیادہ ’غیر عدالتی‘ سرگرمیوں کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔ یہ بات میں نہیں، ہر وہ شخص کہہ رہا ہے، جس کے ذہن میں شعور اور سمجھنے کی سوچ زندہ ہو۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ کے اٹھائیسویں چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنے فرائض ادا کرنے کے بعد 16 ستمبر کو رخصت ہو رہے ہیں، جس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ملک کی سب سے بڑی عدالت کی سربراہ ہوں گے جن کی نامزدگی پہلے ہی ہوچکی ہے۔ وہ 18 ستمبر کو چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھال لیں گے۔ جسٹس گلزار احمد کی ریٹائرمنٹ کے بعد 2 فروری 2022ء کو جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے، جسٹس عمر عطا بندیال ایک سال سات ماہ 14 دن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہے اور اب 65 برس کی عمر میں عہدے سے ریٹائرمنٹ لے رہے ہیں۔

عمر عطا بندیال 2004ء میں لاہور ہائیکورٹ کے جج بنے، عدالت عالیہ میں ایک جج کی حیثیت سے اپنے فرائض تب تک ادا کرتے رہے جب تک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ء میں ایمرجنسی پلس مسلط کرکے ججوں کو پی سی او کے تحت اپنی وفاداری کا حلف لینے پر مجبور نہ کیا، اس غیر آئینی صورتحال میں جسٹس عمر عطا بندیال ان ججوں میں شامل ہوگئے جنہوں نے ایک آمر سے وفاداری کا حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔مگر 2007 میں ایک تحریک کا آغاز ہوا اور ججوں کی بحالی ایک سیاسی نعرہ بن گیا۔ مارچ، دھرنے، جلوس جلسے شروع ہوئے اور پھر میاں نواز شریف نے افتخار چوہدری کو مسند انصاف پر بٹھانے کے لیے لاہور سے لانگ مارچ شروع کردیا۔ یوں 16 مارچ 2009ء کو ایک بڑی گارنٹی پر افتخار چوہدری و دیگر معزول ججوں کو پیپلز پارٹی حکومت نے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بحال کردیا۔ اس طرح جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی اپنے باقی ساتھیوں سمیت لاہور ہائیکورٹ میں مائے لارڈ کی کرسی سنبھال لی اور پھر وہاں کے چیف جسٹس بنے۔ 16 جون 2014ء کو جسٹس بندیال لاہور ہائیکورٹ سے ترقی پاکر سپریم کورٹ کے جج بن گئے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی ریٹائرمنٹ سے 20 دن پہلے یعنی 13 جنوری 2022ء کو تحریک انصاف کی حکومت کی سفارش پر صدر مملکت عارف علوی نے جسٹس عمر عطا بندیال کو باضابطہ طور پر سپریم کورٹ کا چیف جسٹس نامزد کردیا۔ اس طرح جسٹس عمر عطا بندیال 2 فروری 2022ء کو اپنے عہدے کا حلف لے کر سپریم کورٹ کے اٹھائیسویں سربراہ بن گئے۔

اگر ماضی پر نظر ڈالی جائے تو سپریم کورٹ میں اب تک آنے اور جانے والے تمام چیف جسٹسز اپنے ہی کچھ متنازع فیصلوں، عدلیہ کے مجموعی کردار اور التوا میں پڑے مقدمات کے سبب بار ایسوسی ایشنز، سیاسی جماعتوں، صحافیوں اور تجزیے نگاروں سمیت مختلف مکتبہ فکر کے افراد کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنتے ہیں مگر چیف جسٹس عمر عطا بندیال مشہور ہوئے خاص لوگوں کے ساتھ اپنے خاص لاڈ پیار کی وجہ سے۔ شائد یہی وہ وجہ تھی۔ اپنے ساتھی ججوں سے بھی نہیں بن پائی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور کو متنازع فیصلوں، ججز کی تقسیم، ہم خیال ججز کو ساتھ ملاکر سینیئر ججز کو نظر اندز کرنے، مخصوص جماعت یا ایک لیڈر کی طرف جھکاؤ، ذاتی پسند، ناپسند اور کچھ سیاسی جماعتوں کے خلاف محاذ آرائی اور شدید مخالفت کا دور کہا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال ہی وہ چیف جسٹس رہے جن کے دیے گیے فیصلوں پر سپریم کورٹ کے اہم ججوں نے زیادہ اور سخت ترین اختلافی نوٹ بھی لکھے۔ یہاں تک کہ ایک معزز جج جسٹس منصور علی شاہ نے لکھ دیا کہ بینچز بنانے کا چیف جسٹس کا اختیار ون مین شو جیسا ہے، اس فیصلے کے لکھاری جج نے تو کبھی اپنے نوٹ کی وضاحت نہیں کی البتہ جسٹس عمر عطا بندیال کو اس پر وضاحت دینی پڑی کہ انہوں نے جج صاحب سے معلوم کیا، وہ آبزرویشن ان کے لیے نہیں دی گئی بس ایک عمومی بات کی گئی تھی۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا اپنے وقت کا سب سے بڑا فیصلہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی عدم اعتماد پر رولنگ کو کالعدم کرنا اور تحلیل شدہ قومی اسمبلی کی بحالی کا تھا مگر اس کے باوجود ڈپٹی اسپیکر اور صدر مملکت کو آنکھوں دیکھی آئین شکنی کے بدلے بخشش سے نواز دیا گیا، اور دونوں کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں ہوئی۔ دوسری جانب چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا پورا دور سیاسی چپلقش کا دور رہا، اگر تحریک انصاف کوئی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کرتی تو چیف جسٹس اپنی سربراہی میں بنے بینچ میں وہ درخواست سماعت کے لیے مقرر کرتے اگر کوئی تحریک انصاف کے خلاف سائل آتا تو بھی بینچ ایک ہی قسم کا دستیاب ہوتا، جس کی تشکیل کو دیکھ کر عام لوگ بھی نتیجے پر پہنچ جاتے تھے۔پنجاب میں عثمان بزدار کے بعد حمزہ شہباز شریف وزیراعلیٰ بنے تو معاملہ سپریم کورٹ میں آگیا، جہاں چیف جسٹس بندیال نے اس درخواست کو خود سننا پسند فرمایا اور حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کے انتخابات پر آئین کے آرٹیکل 63 اے کے فیصلے پر عملدرآمد ہوا جس کے نتیجے میں وزارت اعلیٰ کی کرسی پرویز الہٰی کے پاس چلی گئی۔ وہ جب تک وزیراعلٰی رہے تب تک انہیں عدالتی وزیراعلیٰ کہا جاتا رہا۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات کے حوالے سے فیصلے پر بھی بڑی تنقید ہوئی کہ اصل میں سپریم کورٹ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں اس مقدمے میں الیکشن ایکٹ کی تشریح کرنے کے بجائے اسے از سر نو لکھ دیا ہے۔ اس مقدمے کے فیصلے کا اثر یہ ہوا کہ فیصلہ آیا فیصلہ گیا کوئی عمل نہ ہو سکا۔ یہ ہی فیصلہ تھا جس میں کچھ دنوں کے بعد سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا کی حد تک فیصلے میں تصحیح کرلی تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت نے جلد بازی میں فیصلہ دیا۔

ان متنازع قسم کے فیصلوں کے ساتھ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے سامنے سب سے بڑا چیلنج عدلیہ کے اندر ججز کی تقسیم کا تھا جس کو ختم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے بطور ادارے کے سربراہ کے ججز کو ایک ٹیبل پر بٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ کئی مقدمات میں وکلا کی طرف سے جب بھی فل کورٹ کی تشکیل کی استدعا کی گئی چیف جسٹس نے وہ مسترد کردی، یہی نہیں بلکہ ان 18 ماہ میں چیف جسٹس نے ایک بار بھی فل کورٹ اجلاس طلب کرکے ادارے کے اندر ججوں کی تقسیم کے تاثر کو زائل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی، یوں کہا جاسکتا ہے کہ سابق چیف جسٹس گلزار احمد کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک بار بھی سب ججوں کو اکٹھا کرنے کے لیے فل کورٹ اجلاس کی صدارت نہیں کی۔

جسٹس مقبول باقر 4 اپریل 2022ء کو بطور جج سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے، اسی دن اپنے اعزاز میں الوداعی فل کورٹ ریفرنس کو مخاطب کرتے ہوئے بھی مقبول باقر نے فرمایا کہ اہم مقدمات میں مخصوص ججز کو شامل نہ کرنے سے عدالتی وقار مجروح ہوتا ہے۔ چیف جسٹس سینیئر ججز کے مشوروں کو نظر انداز کرتے رہتے تھے۔ ایک مقدمے میں تو ایسا بھی ہوا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عدالتی فیصلے کو رجسٹرار کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے ذریعے معطل کردیا گیا، ان کے اختلافی فیصلوں کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں سپریم کورٹ کے سربراہ اور ساتھی ججوں نے جو کچھ فرمایا اور ایک سینیئر ساتھی کی بیگم کو روسٹرم پر ملزم کی حیثیت میں جس طرح کھڑا کردیا گیا وہ ایک الگ ہی داستان ہے۔ نو مئی 2023ء کو تحریک انصاف کے سربراہ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا گیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عدالت لگالی اور 11 مئی کو تحریک انصاف کے گرفتار سربراہ عمران خان کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ ان کی آمد کے موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں ’گڈ ٹو سی یو‘ کہہ کر خوش آمدید کہا چیف جسٹس کی کسی مقدمے کے ملزم کے حوالے سے ایسے جملوں کی ادائیگی پر بڑی تنقید ہوئی۔

عدالت کے اندر اور باہر گڈ ٹو سی یو کے جملے کے چرچے ہوتے رہے، چیف جسٹس کو کئی مرتبہ اس کی وضاحت کرنا پڑی۔ لیبل اتارنے کے لیے وہ کبھی اٹارنی جنرل تو کبھی ایڈووکیٹ جنرل کو گڈ ٹو سی یو کہہ کر پکارتے اور ہنستے کبھی کہتے یہ میری پرانی عادت ہے لیکن تمام وضاحتیں اس تاثر کو زائل نہیں کرسکیں کہ ایک بڑے ادارے کے سربراہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ وقت تو وقت ہے کسی کا غلام نہیں ہوتا۔ گزر ہی جاتا ہے مگر تلخ یادیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ جاتا ہے۔۔۔کاش عمر عطا بندیال کچھ ایسا کرجاتے کہ ایک عام انسان بھی ان کی مثالیں دیتا۔

بدقسمتی سے آج بھی ہماری عدالتیں مظلوم کو انصاف فراہم کرنے میں سست جبکہ طاقتور کو انصاف کی فراہمی میں چست نظر آتی ہیں۔ یہاں غریب تو سالوں سال جیل میں سڑتا ہے مگر امیر کے وکیل بھی امیر ہوتے ہیں۔ اس لئے اس کو انصاف بھی جلد مل جاتا ہے۔ پاکستان کی عدالتوں میں لاکھوں کیسز اب بھی فائلوں میں بند دھول مٹی سے دھدلے ہوچکے ہیں۔ امید ہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ انصاف کی راہ کو ہر شخص کے لئے آسان بنائیں گے اور ایسا نظام بنائیں گے جہاں روٹی کپڑا مکان ملے یا نہیں ملے مگر جب کوئی شخص عدالت  کے در پر آکر انصاف مانگے اس کو انصاف ضرور ملے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں