ٹائٹل خواتین کا عالمی دن

0
9

تحریر: رابعہ خان

خواتین کا عالمی دن کیوں منایا جاتا ہے؟ کیا یہ کوئی جشن میلا ہے؟ کوئی احتجاج کی صورت ہے؟ یہ دن کب منایا جاتا ہے؟ کیسے شروع ہوا؟
8 مارچ جو کہ خواتین کے لئے ایک خاص دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ معاشرے میں ان کے مشترکہ حقوق کو اُجاگر کرنے کے لئے اس دن کو منایا جاتا ہے۔

خواتین کے عالمی دن کا آغاز نیویارک شہر سے 1908 میں ہوا۔ خواتین کا عالمی دن ویسے تو  مزدور تحریک کے طور پر شروع ہوا مگر اب یہ اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم کردہ ایک دن ہے۔
اس کی تاریخ کو کھوجنا چاہو تو یہ خواتین کا عالمی دن کئی تحریکوں اور ہڑتالوں پر مشتمل ہے۔ کہیں اپنے جائز مطالبات و حقائق تو کہیں روٹی و امن کے لئے ہڑتالیں کی۔ کئی ممالک میں خواتین کے لئے عالمی دن کے طور پر تعطل کا دن بھی قرار پاتا ہے۔

آخر خواتین کے اس دن کو منانے کا عنوان کیا ہے۔
آج کے دن کو منانے کا مقصد محض یہی ہے کہ عورت کو بھی معاشرے میں یکسانیت کے ساتھ قبول کرنا مکمل حقوق فراہم کرنا ہے۔ کوئی بھی باشعور انسان اس دن کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ کیونکہ آج کے جدید سائنسی و ٹیکنالوجی کے دور میں رہتے ہوئے بھی بعض جگہوں پر لوگ قدامت پرست و منفی سوچ رکھتے ہوئے خواتین کے اس دن کو مغربی ایجنڈا قرار دے کر رد کر دیتے ہیں۔

دوسرا ہمارے معاشرے میں خواتین کے درپیش مسائل کی آگاہی صرف شہری علاقوں تک ہی محدود ہے۔ چھوٹے اور دہی علاقوں میں اس دن کی آگاہی ملے بغیر ہی عام دنوں کی طرح ہی گزار جاتا ہے جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ بہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کے ہمارے ملک میں خواتین کا تناسب آدھا ہے مگر غیرت پرستی، روایات پرستی میں لپٹی سوچ کی نظر ہو جاتی ہیں زیادہ تر خواتین، اور ان کا اسی وجہ سے معاشرے میں نمایا فعال نظر نہیں آتا۔

پر آخر کار کب تک یہ عورتیں بے جا رسم و روایات کی بیڑیوں میں خود کو جکڑ کر رکھیں گیں؟ کب سر اٹھا کر معاشرے میں چل سکیں گیں، کب اپنا وجود دنیا میں عزت کے ساتھ کریں گی؟ محض خواتین کا عالمی دن منانا یا ان کے حقوق اجاگر کرنا ہی کافی نہیں ہے ان حقوق سے انہیں آراستہ کرنا بھی ضروری ہے۔ آج ہم ترقی کی ان دہائیوں پر جا پہنچے ہیں کہ آپ کو مارکیٹ میں مرد و عورت دونوں کام کرتے اور اپنے ہنر کو اجاگر کرتے نظر آئیں گے۔ لیکن رسم و رواج میں پھنسی عورتوں کی محنت و مشقت آج بھی ہمارے معاشرے میں ایک  سوالیہ نشان ہے۔ آج بھی سماج کی جانب سے انہیں ان کے جائز حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے جس کی وہ اصولی حقدار ہیں۔

خواتین کے حوالے سے اتنی قانون سازی ہونے کے باوجود بھی ہر سال غیرت کے نام پر لڑکیوں کے قتل، گھریلو تشدد، تیزاب پھینکنے، زبردستی شادی، اور جنسی زیادتیوں جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔
غور کیا جائے تو خواتین اس حوالے سے یہ اب بھی دن بہ دن تنزلی رویات کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔
چادر اور اور چار دیواریوں کی آڑ میں خواتین کو اب بھی ان کے بنیادی حقوق سے محروم ہی رکھا جاتا ہے زمانہ بھلے ہی ترقیوں و بلندیوں کے عروج پر پہنچ چکا ہے مگر خواتین کے لئے معاشرے کے ذہنوں میں اب بھی وہی سوچ بچار ہیں کیوں؟ جب اسلام نے معاشرے میں مرد و عورت کو برابر کے حقوق سے آراستہ کیا ہے تو یہ دنیا، یہ زمانہ کون ہوتا ہے عورتوں کو اپنے روایتی زنجیروں میں جکڑ کر انہیں ان کے حقوق سے محروم کرنے والا، معاشرے کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اللہ رب العالمین نے مرد اور عورت کو برابر نہیں بنایا لہذا ان کے حقوق کو یکساں طور پر واضح کردیا ہے کہیں عورت کا مقام اونچا ہے کو کہیں مرد کا۔

اس لئے خواتیں کو معاشرے میں وہی آزادی وہی حق رائے ہونی چاہیے جو ایک مرد کو ہوتی ہے۔
لہذا دن منانا ہی کافی نہیں ہوگا ہمیں اپنا عملی طور پر بھی کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ ہر سال خواتین کا عالمی دن آئے کا اور گزار جائے گا لیکن وہ آزادی رائے سے ہمیشہ محروم ہی رہیں گیں۔
معاشرے کی تمام عورت ذات کو
خواتین کا عالمی دن مبارک ہو

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں