قابل احترام استاد محترم

0
61

تحریر: رابعہ خان

حصول علم کے بنیادی ارکان میں سب سے اہم رکن استاد محترم ہے جس طرح علم حاصل کرنے کے لیے علم سیکھنے کے لئے درسگاہوں و کتابت کی اہمیت ہوتی ہے ان کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح حصول علم میں استاد کا ادب و احترام مرکزی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ والدین کے بعد ایک استاد ہی ہے جو روحانی والد ہوا کرتا ہے جو تعلیم کے ذریعے سے زندگی کی جانب روشناس کرواتا ہے کچھ کرنے کا شعور بیدار کرتا ہے اور ایک مقام تک پہنچاتا ہے بہتر زندگی بسر کرنے کا انداز و کامیابی ہم اپنے روحانی والدین سے ہی سیکھتے ہیں۔ اس لئے ان کا عزت و احترام بے حد ضروری ہے۔ استاد کا بے ادب ہونا بھی علم ہی کی بے ادبی ہے کیونکہ لوگ ڈگری تو لے سکتے ہیں کسی بھی درسگاہ سے مگر فیضانِ علم سے یقیناً وہ محروم ہی رہتے ہیں۔ استاد کے بغیر انسان پروان نہیں چڑھ سکتا  مستقبل کی منزل میں ہمیشہ پیچھے ہی رہے گا۔

استاد علم کا سر چشمہ ہوتا ہے کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی ہے جب تک اس کے پاس تعلیم و شعور نہ ہو اور یہ سوائے استاد کہ کہیں سے نہیں مل سکتا یعنی کسی بھی قوم کی ترقی و تعمیر میں استاد کا رول اہمیت رکھتا ہے، ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک استاد رہے اور استاد کو یہ پہلے سے ہی بہت اعلیٰ و مرکزی مقام حاصل ہے۔ یہ صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ دنیا کہ ہر مذہب  میں نمایاں مقام و مرتبہ حاصل ہے لیکن اگر معاشرے کے حوالے سے غور کیا جائے اور ایک آفاقی حقیقت سے دیکھا جائے تو دنیائے علم نے استاد کی حقیقی قدر و منزلت کو نہ تو کبھی پہچانا اور نہ ہی اجاگر کرنا چاہا پھر بھی جس طرح اسلام میں بلند مقام و مرتبہ ملا اور آغاہی فراہم ہوئی وہ یقیناً کسی اور مذہب میں اتنا نہیں ہوا۔  جیسا کہ اللّٰہ رب العزت نے قرآن مجید میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو بحیثیت معلم بیان کیا ہے۔ اور رسول اللہ خود فرماتے ہیں کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے اور فرمایا کہ رہتی دنیا تک استاد عزت و توقیر کے اعلیٰ منصب پر فائز رہیں گے۔ معاشرے میں پہلی درس گاہ ایک ماہ کو ٹھہرایا گیا ہے کہ مثالی طور پر ماں کو ہزار اساتذہ پر فوقیت حاصل رہی وہی پر بچے کے لئے کائنات کو درسگاہ بنانے کی طاقت رکھنے کی وجہ سے روحانی والدین کا درجہ دیا گیا ہے۔ جہاں والد بچے کو انگلی پکڑ کر چلنا سیکھاتا ہے وہی ایک استاد بچے کو زندگی کا مقصد بتاتے ہیں ہمیشہ آگے بڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔

زندگی کا کوئی بھی شعبہ خوہ جج، پولیس، سیاست، بیوروکریٹس یاپھر صحافت ہو یہ تمام صلاحیتیں ایک استاد کی دی گئی روحانی پرورش کی بدولت ہی انسان میں ہوتی ہیں اور یہ تمام کہ تمام شعبات استاد ہی کی صلاحیتوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ استاد معاشرے کے نگہبان ہونے کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتی نسلوں تک اپنا علم پہنچانے کا ذریعہ بھی ہوتے ہیں، اساتذہ کی اگر اپنے فرائض کی ادائیگی میں ذرہ سی بھی چوک ہو جائیں تو تب معاشرے کی بنیاد اکھڑ جایا کرتی ہے تب معاشرہ حیوانیت و مفاد پرستی کی جانب جنم لیتا ہے اور جہنم کا نمونہ پیش کرتا ہے، اگر اساتذہ کی تعلیمات میں کہیں بھی کوئی بھی نقص یا عنصر خلاف انسانیت آ جائے تو وہاں معاشرا بدامنی، چوری و رشوت خوری کی منہ بولی تصویر پیش کرتا ہے۔ آج اگر دیکھا جائے تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ محض نوکری، اسکیل و ترقی کرنے تک محدود راہ گیا ہے اور اپنی عزت و وقار کو تقریباً حد تک کھو بیٹھا ہے ایک استاد و شاگرد کا رشتہ معاشرے میں کھوتا نظر آرہا ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رح سے ان کے عزیز شاگرد حضرت امام یوسف نے پوچھا کہ استاد کیسا ہوتا ہے تو انہوں نے عرض کیا استاد وہ ہے جو دوسروں کے بچوں کو اپنے بچے سمجھ کر پڑھائیں اور اگر وہ دوسروں کے بچے سمجھ کر پڑھاتا ہے تو وہ استاد نہیں۔ اس لئے استاد اور شاگرد کو چاہیے کہ وہ معاشرے میں اپنا اپنا ایمانداری سے کردار ادا کریں۔اور استاد کے معاشرتی خدمات کی ادائیگی کی وجہ سے معاشرا نہ صرف استاد کو اعلیٰ و نمایاں مقام فراہم کرے بلکہ ان کے ادب و احترام کو بھی ملحوظ خاطر رکھے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں