میثاقِ جمہوریت میں رحمان ملک اہم کردار

0
196

تحریر: شاہ ولی الللہ

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (نواز) کے درمیان میثاقِ جمہوریت میں اہم کردار ادا کرنے والے رحمان ملک بھی رخصت ہوئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما رحمان ملک بطور سینیٹر گذشتہ سال مارچ میں سبکدوش ہوئے۔ انھوں نے اپنے الوداعی پیغام میں کہا تھاکہ الوداع سینیٹ آج ہمارا ساتھ ختم ہوا سفر میں جدا ہونے والے ساتھیوں کی مغفیرت کے لئے دعاگو ہوں۔ رحمان ملک بھی دنیا سے رخصت ہوگئے، انااللہ وانا الیہ راجعون۔

سینیٹر رحمان ملک 2008 سے 2013 تک پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وفاقی وزیر داخلہ کے منصب پر فائز تھے اور میں اس دوران ایکسپریس ٹی وی اور نائنٹی ٹو نیوز سے وابستہ رہا۔ ہمارے بیورو چیف عمران احمد نے حکومت سندھ کے ساتھ وفاقی وزارت داخلہ کی رپورٹنگ کی ذمہ داری بھی مجھے سونپی ہوئی تھی۔ لہذا رحمان ملک کے دورے کراچی کی کوریج کے لئے اکثر جانا ہوتا تھا۔ میرے ان کے ساتھ تعلقات کا بھی اک عجب واقعہ ہے شاید یہ 2008 کی بات ہے عید الفطر کے چوتھے روز میں آفس پہنچا تو بتایا گیا کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کراچی پہنچ گئے ہیں اور وہ اسٹیٹ گیسٹ ہائوس میں میڈیا سے بات کرینگے لہذا آپ چلے جائیں۔ میں اپنی ٹیم کے ہمراہ ڈی ایس این جی لیکر روانہ ہوگیا۔

اسٹیٹ گیسٹ ہائوس میں پریس کانفرنس میں شرکت کے لئے بڑی تعداد میں صحافی موجود تھے میں بھی جاکر ان کے درمیان بیٹھ گیا کچھ ہی دیر میں رحمان ملک کمرے میں داخل ہوئے اور مجھے دیکھ کر مخاطب ہوئے۔ جناب آپ کہاں غائب ہیں۔ عید والے روز ملنے کیوں نہیں آئے؟ تمام صحافی تو آئے تھے اور اچانک میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے کمرے سے باہر لے کر آگئے اور جیب میں سے ایک لفافہ نکال کر پکڑا دیا اور کہنے لگے اس میں پچاس ہزار روپے ہیں۔ آپ کی اور بچوں کی عیدی ہے مجھے ان کے اس عمل سے جھٹکا سا لگا اور سبکی محسوس ہوئی شاید وہ مجھے بھی لفافہ صحافی سمجھے تھے۔ لہذا میں نے انھیں لفافہ واپس کرتے ہوئے اپنا لہجہ نرم گرم رکھتے ہوئے کہا محترم نہ آپ میرے دادا ہیں اور نہ تایا ہیں کہ میں عید پر خاص طور پر آپ کو سلام کرنے حاضر ہوتا۔ جہاں تک عید پر ملاقات کا سوال تو میں عیدالفطر کا دن اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارتا ہوں۔ لہذا آپ مناسب سمجھیں تو اس لفافہ کو ابھی اسی جگہ واپس لے لیں یا میں کمرے میں جاکر سب کے سامنے واپس کروں؟ جہاں تک آپ کے پروگرام کی کوریج کا تعلق ہے وہ میرے فرائض میں شامل ہے۔ یہ کوئی احسان نہیں کرتا۔ مجھے میرا ادارہ اس کام کی تنخواہ دیتا ہے۔ آپ مجھ پر اگر کوئی احسان کرنا چاہتے ہیں تو خبر کے حوالے سے میری مدد کردیا کریں۔ پہلے تو وہ میرے چہرے کو بغور دیکھتے رہے پھر کہنے لگے چلو موڈ ٹھیک کرو اور ہاتھ پکڑ کر واپس کمرے میں لے آۓ۔ جہاں پریس کانفرنس ہونا تھی پھر اس واقعہ کے بعد وہ اکثر مجھے ایکسکلسیو خبر دیا کرتے تھے جو میری بریکنگ نیوز کہلاتی تھی۔ اس طرح ان سے میرا ایک بے لوث رشتہ قائم ہوگیا تھا۔ ملک صاحب نے کئی مرتبہ ہمارے بیورو چیف عمران احمد اور مجھے اپنے گھر کھانے پر بھی مدعو کیا اپنے اہل خانہ اور دوستوں سے بھی اچھے الفاظ میں ہمارا تعارف کراتے تھے، انتقال سے تقریباً ایک ماہ قبل میری اور عمران احمد کی ٹیلی فون پر رحمان ملک مرحوم سے گفتگو ہوئی، جس میں کافی عرصہ بعد رابطہ ہونے پر انہوں نے خوشی کا اظہار کیا اور وعدہ کیا کہ جب وہ کراچی آئیں گے تو ملاقات کریں گے، بہرحال اب تو وہ ملک عدم روانہ ہوگئے۔

رحمان ملک قومی سیاست میں داخل ہونے سے پہلے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) میں مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے۔ وزارت کے دوران قومی اخبارات و میڈیا کی زینت بنے رہے، 1999میں پہلی مرتبہ ان کا نام سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کے خلاف کرپشن کی ایک رپورٹ برطانوی اخبار آبزرور میں شائع ہونے کے بعد ملکی اخبارات میں نمایاں ہوا تھا۔ رپورٹ کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اس کو ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل رحمان ملک نے اخبار کے حوالے کیا تھا، دوسو صفحات پر مشتعمل اس رپورٹ کو ایف آئی اے نے تیار کیا تھا، اس کی نقل اس وقت کے صدر مملکت رفیق احمد تارڑ اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جہانگیر کرامت کو بھیجی گئی تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ نواز شریف نے ایک ارب 90 کروڑ ڈالر سے چار فلیٹ خریدے ہیں اور لاکھوں پاونڈز بیرون ملک منتقل کئے ہیں۔ سابق صدر رفیق احمد تارڑ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ رپورٹ موصول ہوئی ہے لیکن یہ حکومت کو بدنام کرنے کی ایک سازش ہے۔ برطانوی اخبار آبزرور میں شایع ہونے والی رپورٹ پر مبنی خبر کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نےجھوٹی اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اور کہا تھا کہ اس قسم کی خبریں شائع کرانے والے ملک دشمن ہیں۔ رپورٹ صدر اور آرمی چیف کو بھیجنے کے بعد رحمان ملک کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ لندن پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ان کے لندن جانے کے چند ماہ بعد وفاقی حکومت نے رحمان ملک کو بدعنوانی اور بدانتظامی کے الزامات میں چارج شیٹ کردیا تھا۔ ان پر کم قیمت پلاٹ خریدنے اپنے رشتہ داروں کے نام اراضی خریدنے اور اپنے سالانہ گوشواروں میں اپنے اثاثے ظاہر نہ کرنے کے الزامات تھے بعد میں انھیں ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔

وزارت کے دوران رحمان ملک صاحب سے اکثر اسٹیٹ گیسٹ ہاوس اور کلفٹن میں واقع ان کی رہائش گاہ پر ملاقاتیں ہوئیں۔ جہاں مختلف ملکی وسیاسی امور پر ان سے گفتگو ہوتی تھی۔ ایک ملاقات کے دوران انھوں نے بتایا تھا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (نواز) کے درمیان میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرانے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔ مئی 2006 میں لندن میں میری رہائش گاہ پر دونوں رہنماؤں کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے تھے۔ جن میں بینظر بھٹو کی مدد پارٹی کے مرکزی رہنماؤں مخدوم امین فہیم، رضا ربانی، سید خورشید شاہ، اعتزاز احسن اور راجہ پرویز اشرف کررہے تھے جبکہ مسلم لیگ نواز کی طرف سے نواز شریف، شہباز شریف، اقبال ظفر جھگڑا، چودھری نثار علی خان، احسن اقبال اور غوث علی شاہ نے کی۔

محترمہ بے نظیر بھٹو اور مشرف حکومت کے ساتھ ہونے والی مفاہمت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اگست 2007 سے پہلے پیپلزپارٹی اور عسکری قیادت کے درمیان رابطے شروع ہوگئے تھے۔ لندن میں مشرف کے مشیروں سے میری کئی ملاقاتیں رہیں، میرا رابطہ سابق صدر مشرف کے مشیر طارق عزیز کے ساتھ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو دوبئی میں قیام کے دوران فوج سے بات چیت کے لئے میں نے قائل کیا تھا۔ محترمہ سے کہا کہ ہمیں فوج سے بات کرنا چاہئے ان کے خدشات دور کرکے ہی معاملات درست سمت میں چلائے جاسکیں گے۔ بالاآخر وہ بات چیت کے لئے راضی ہوگئیں تھیں۔

ملک صاحب نے یہ بھی انکشاف کیا کہ این آر (قومی مفاہمتی فرمان) ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے کہنے پر لایا گیا تھا۔ مشرف کے مشیر نے پیپلزپارٹی کے لوگوں پر بھی قائم مقدمات ختم کرنے کی پیشکش کی تھی لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم اپنے کیسز کا سامنا کرینگے۔ رحمان ملک مرحوم کا کہنا تھا کہ کراچی میں پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان اختلافات کی صورت میں وہ پل کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ حالات ساز گار کرنے کے لئے پہلے گورنر عشرت العباد سے پھر لندن جاکر ایم کیو ایم کے قائد سے ملنا پڑتا تھا۔ رحمان ملک نے یہ بھی بتایا تھا کہ سابق صدر زرداری کے دور حکومت میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے دو بھائیوں کو سفارت خانہ میں نادرا کے دفتر میں ملازمتیں دیں گئیں تھیں۔

رحمان ملک مرحوم ایک کرشماتی شخصیت تھے وہ بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ 18 اکتوبر 2007ء کو وطن وآپس پہنچے تھے۔ کارساز بم دھماکے کے دوران ان کے ساتھ تھے اور راولپنڈی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے بہیمانہ قتل کے موقع پر چیف سکیورٹی آفیسر کی حیثیت سے بھی موجود تھے ان کی زندگی مختلف تنازعات کا شکار رہی۔ وہ القاعدہ، طالبانائزیشن، اسامہ بن لادن اور بینظیر بھٹو کے قتل سمیت بہت سارے رازوں کے امین تھے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں