جشن ِمیلادالنبیﷺ، اظہارِ محبت کا عنوان

0
17

تحریر: سفیر احمد رضا

حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ نبیؐ مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک صحابیؓ عرض کرتے ہیں، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان، فرمائیے، قیامت کب آئے گی؟ رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے پیارے صحابیؓ، آپ قیامت کی بابت تو پوچھتے ہیں، پہلے یہ تو بتایئے کہ آپ نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟صحابیؓ عرض کرتے ہیں، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اپنے کسی عمل پر ناز ہے نہ کوئی دعویٰ اور اعتبار مگر ایک عمل ہے کہ میں اللہ اور اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ اس پر سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشادفرماتے ہیں، جو جس سے محبت کرتا ہے، اس کا حشر بھی اُسی کے ساتھ ہوگا۔

صحابہ ء کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا مبارک معمول تھاکہ جب بھی ایک دوسرے سے ملتے تو کو کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور پیش فرماتے۔ وہ تحفہ کیا ہوتا؟، سبحان اللہ، انؓ کا ایک دوسرے کیلئے سب سے بڑا تحفہ یہ ہوتا کہ جو کوئی انؓ میں سے نبیؐ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی سعادت حاصل کرکے آئے ہوتے، فرماتے،”میں تمہیں کوئی تحفہ نہ دوں“ دوسرے صحابی ؓفرماتے، جی ضرور، تو وہ صحابیؓ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک مجلس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو عمل دیکھ یاسن کر آتے، من وعن بیان فرمادیتے، سبحان اللہ، رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تازہ واقعہ سننا اور سنانا ان صحابیؓ کے لئے کائنات کی ہر نعمت سے بڑھ کر عزیز ہوتا۔

سرکارِ دوعالم، نورِمجسم، فخر بنی آدم، رحمت ارض وسما و مافیہا، وجہہِ تخلیق کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ عظیم ذات ہیں جن کو خود رب ذوالجلال نے خلق عظیم کے بلند ترین منصب جلیلہ پر فائز فرمایا۔صدیقہ کائنات ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلق قرآن ہے۔ سبحان اللہ۔جس ہادی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت وشان کا چرچا خود خالق و مالکِ کائنات فرما رہا ہے۔”ورفعنالک ذکرک“، اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر آپ کے لئے عظیم کردیا، ان کی عظمتوں اور رفعتوں کا اندازہ کون کرسکتا ہے۔ ایسی شان و عظمت والے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب رب ذوالجلال نے مبعوث فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کو مؤمنین پر ”احسان“ قرار دیا۔ سبحان اللہ، کتنا عظیم احسان ہے یہ کہ جس کا تذکرہ خود خالقِ کائینات فرمارہا ہے، نیز فرمایا، ”ویُزکیہم“ اور یہ رسول تمہیں پاک کرتے ہیں۔ سبحان اللہ، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فداک امی وابی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم گناہ گاروں کو جینے کا شعور دیا، کتنا عظیم احسان ہے یہ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوہ افروز ہونے سے رحمتِ الٰہیہ کے بحرِ بیکراں کا دروازہ کھل جاتا ہے، کائنات میں امن و اخوت، ایثار و محبت اور عظمت انسانی کے پھریرے لہرانے لگے۔ کتنا عظیم احسان ہے یہ، آپ آئے تو مردہ دلوں میں نورِ ایمان کی مشعلیں روشن ہوگئیں، کتنا عظیم احسان ہے یہ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے تو کائنات میں بسنے والے پہلی بار کسی بہار کی نوید سے آشنا ہوئے، کتنا عظیم احسان ہے یہ، سبحان اللہ، کتنا عظیم احسان ہے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے وہ بہا رآئی جس کی خوشبو سے ظلم وجبر، استبداد و کم ظرفی، انا وخود غرضی، ناانصافی وحق تلفی، بے حیائی و فحش گوئی، بے علمی و عاقبت نااندیشی کے گھٹا ٹوپ بادل چھٹ گئے۔ کتنا عظیم احسان ہے یہ، یہی وہ پہلی بہار تھی کہ جس کی خوشبو سے کائنات کی ہر ہر شے معطر ہوکر مہکنے لگی۔ بہار کی یہ نوید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہی نعلین مبارک کے تصدق ہمارے مقدر کا حصہ بنی۔ کتنا عظیم احسان ہے یہ، نبی مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دنیا میں تشریف آوری کو ہی رب کائنات نے اپنی سب سے عظیم نعمت اور احسان قرار دے کر اس کے مل جانے پر مؤمنین کو ”فلیفرحو“ ارشاد فرماکر خوشیاں منانے کا حکم دیا اور اس خوشی پر اظہارِ تشکر کو تا قیامت لازم کردیا۔ کتناعظیم احسان ہے یہ، سبحان اللہ۔ کاش کہ یہ احساسِ محبت بیدار ہوجائے تو پھر جب آنکھیں ہوجائیں گی اور بندہ اپنے رب کے حضور حاضر کیا جائے گا، تو ان عاشقان رسول کے لئے خوشخبری ہوگی کہ اے صلوٰۃ وسلام پر جھومنے والو! نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سن کر محبت سے انگوٹھے چومنے والو! اللہ پاک کی رحمت سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ جب سرکارِ مدینہ، راحت قلب و سینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر میں جلوہ دکھا کر واپس تشریف لے جانے لگیں تو عشاقان ِرسول پر کرم ہو اور بیساختہ ان کی زبان پر جاری ہو جائے، قبر میں سرکار آئیں تو میں قدموں پر گِروں گر فرشتے بھی اُٹھائیں تو میں اُن سے یُوں کہوں اِن کے پائے ناز سے میں اے فرشتو! کیوں اُٹھوں مَر کے پہنچا ہوں یہاں، اس دِلرُبا کے واسطے
جب قبر میں آخری سوال کا جواب دے چکیں گے تو جہنم کی کھڑ کی کھلے گی اور فوراً بند ہو جائے گی، پھر جنت کی کھڑکی کھلے گی اور کہا جائے گا: اگر تُو نے درست جوابات نہ دئیے ہوتے تو تیرے لئے وہ دوزخ تھی، یہ سن کر اسے ایسی خوشی اور تسکین ملے گی کہ اس کا دنیا میں تصور بھی محال ہے، اب کفن جنتی کفن ہوجائے گا اور جنتی بچھونا ہوگا، قبر تاحد نظر وسیع ہو جائے گی اور اللہ کریم کے فضل و احسان سے نگاہِ مصطفی کے تصدق خصوصی انعامات کی بارش کر دی دی جائے گی۔

امام اہل سنت نے اسی منظر کو یوں بیان کیا کہ
قبر میں لہرائیں گے تا حشر چشمے نُور کے
جلوہ فرما ہوگی جب طلعت رسول اللہ کی دنیا بھر کے مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کا جشن پر جوش انداز اور عقیدت واحترام سے مناتے ہیں‘ یہ ایک مستحب عمل ہے، جو کرے، اس عمل خیر پر یقینا اللہ کریم سے جزا پائے گا۔ جو محروم رہے، اس کا اپنا مقدر ہے، یہ کوئی جبر کی بات نہیں محبتوں کاسودا ہے۔ یقیناًیہ لمحات ہماری زندگی و آخرت میں خیر کا باعث ہوں گے۔ اللہ رب العالمین ہمیں اس عمل خیر کی توفیق عطافرمائے۔ آمین

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں