میرٹ کی قاتل، کمال کی سازش (پہلی قسط)

0
71

تحریر: کامران شیخ

ایک شہر میں معروف ادارے کا مرکزی دفتر ہے اس ادارے کو ممتاز اور معتبر ہونے کا اعزاز حاصل تھا اس ادارے سے منسلک لوگ انتہائی باصلاحیت پروفیشنل اور اپنے شعبے کے نامور افراد سے جڑے ہیں، ایک عام ملازم سے مالک تک سب ہی اس پیشے سے لگن کی حد تک محبت رکھتے ہیں۔

مگر آہستہ آہستہ یہاں کچھ ایسے لوگ آتے گئے جو اس ادارے کی بدنامی اور مشکلات کا سبب بننے لگے، تقریباً ڈیڑھ سال قبل اس ادارے کی ‘بڑی’ سیٹ پر ایک ایسا شخص لاکر بٹھا دیا گیا جس کا ماضی انتہائی خراب، سازشوں کا ایک ایسا ماسٹر مائنڈ کہ اپنا قریبی رشتہ بھی سازش کی نظر کرچکا کیونکہ اس شخص کا مقصد صرف میرٹ کا قتل کرنے اور منصوبہ بندی کرکے اہل افراد کو ختم کرنے کا خطرناک ایجنڈا تھا۔

اس شخص نے ادارے کے ساتھ وہ سلوک کیا جو ایک گھٹیا اور گندی ذہنیت رکھنے والا بھی شاید نا کرسکے، بظاہر وہ خود کو ‘نفیس’ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا رہتا لیکن اندرون خانہ وہ سازشی منصوبے بناتا رہتا، کوئی شخص اس سے ملے تو سوچتا کہ یہ تو ‘کم گو’ اور انگریزی پر عبور رکھنے والا بہترین انسان ہے مگر در حقیقت وہ ایک ‘چپ گھنا’ اور مکاّر ثابت ہوا، اس نے ادارے کے ان ملازمین کو جو کہ اس کے گھٹیا ماضی سے واقفیت رکھتے تھے یا ایسے افراد جو کہ میرٹ پر پورا اترتے تھے ان کو خاموشی سے اور آہستہ آہستہ ڈسنا شروع کیا، یعنی آستین کا سانپ بن جانے والی مثال اس شخص پر غالب آنے لگی یہ ڈستا جاتا اور میرٹ پر پورا اترنے اور کام کرنے والے افراد اس کے عتاب کاشکار ہوتے جاتے ہیں۔ اس شخص نے چن چن کر ان تمام لوگوں کو اپنے حملے کا نشانہ بنایا جو کام کرنا جانتے اور اپنی سیٹ کے حساب سے اہل تھے، حتٰی کہ جو اس ادارے میں اس کو لانے اور راستہ دکھانے کا سبب بنا، جس کی کوششوں سے اسے نوکری ملی اس شخص نے اسے بھی ڈس لیا۔

وجہ یہ تھی کہ یہ سازشی شخص خود کچھ نہیں جانتا تھا اور خود کو ‘استاد’ کہلواتا پھرتا تھا اس کا شعبے میں دور دور تک کوئی تجربہ نا تھا، یہ شخص عدم تحفظ کا شکار تھا کہ اگر کام کرنے والا کوئی انسان اردگرد رہا تو اس کا بھانڈا پھوٹ جائیگا، اس شخص کی ایک اور گھٹیا ذہنیت کی عکاسی کچھ اس طرح ہوئی کہ یہ مردوں سے بات کرنا پسند نہیں کرتا۔ البتہ مردوں کے علاوہ افراد کو اپنے چنگل میں پھنسانے کا فن خوب جانتا تھا یہ ماضی میں ایک ادارے سے اپنی انھی حرکتوں کی وجہ سے نکالا گیا تھا (ماضی کی کہانی انشااللہ اگلی قسط میں) کبھی یہ جاب کرنے والی خواتین کے کپڑوں پر تو کبھی میک اپ پر تنقید کرتا بعض اوقات تو ایسی نظروں سے دیکھتا کہ خواتین سہم ہی جاتیں۔ بہرحال اس شخص کی وجہ سے ادارہ دن بدن تنزلی کی طرف جاتا رہا، آس پاس سے بھی آوازیں آنے لگیں درجنوں افراد نے اس ادارے کے مالکان کو بلواستہ اور بلا واسطہ اور کچھ نے برملا کہا کہ خدارا اپنے آباواجداد کے لگائے پودے جوکہ اب ایک تناور درخت ہے اس کو سازشوں سے پاک کیجئے اور اس آدمی کے گھٹیا عزائم کو جانچیے، جو آپ سمیت ادارے کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے مگر حیرت انگیز طور پر اس ادارے کے مالکان تاحال چپ سادھے ہوئے ہیں، ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس شخص کے ساتھ تین سے چار لوگ اور ہیں جو اس کی ہاں میں ہاں ملاتے اور اس کی تقلید میں اندھے ہوچکے ہیں۔ کیونکہ جن چند لوگوں کو اس نے ساتھ ملا کر ادارے کی بربادی کا آغاز کیا وہ افراد بھی ‘آوٹ آف میرٹ’ اور کام کرنا نہیں جانتے لہٰذا وہ اس کے ساتھ ملکر دیگر کام کرنے والے اہل افراد کے خلاف سازش میں برابر کے شامل ہیں۔ (جاری ہے)

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں