زندگی مولانا رومی کی نظر سے

0
202

تحریر: محمد ولید احمد (رپورٹر جیو نیوز)

واقعات کے قبرستان سے سچ اور جھوٹ الگ کرنا تلوار پر چلنے جیسا مشکل کام ہے، معلوم نہیں یہ داستان بیتی ہے یا گھڑی گئی ہے۔ سنتے ہیں مولانا رومی دریا کنارے کتاب پڑھ رہے تھے، شمس تبریزی آئے، پوچھا یہ کیا ہے، کپڑے پھٹے پرانے تھے، مولانا رومی سمجھے فقیر ہے، بولے “یہ وہ علم ہے جو تم نہیں جانتے” شمس تبریزی نے جھٹ سے کتابیں اٹھائیں اور دریا میں پھینک دیں، مولانا رومی پریشان ہوگئے “ارے یہ تم نے کیا کردیا”۔ شمس تبریزی نے پوچھا کتابیں بہت کام کی تھیں؟ رومی نے کہا “ہاں مگر اب کیا ہوسکتا ہے” شمس تبریزی نے دریا میں ہاتھ ڈال کر کتابیں نکالیں تو وہ سوکھی ہوئی تھیں، مولانا رومی کی آنکھوں میں حیرانی تیرنے لگی؟ “یہ کیا کرشمہ ہے”شمس تبریزی نے کہا “یہ وہ علم ہے جو تم نہیں جانتے” پھر مولانا رومی شمس تبریزی کے شاگرد ہوگئے اور یوں رومی کا علم آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ صوفی کی مثنوی مغربی درسگاہوں میں عام ہے، وہ روح کے شاعر کہلائے، جنہوں نے اندھیروں میں چراغ جلائے، جلال الدین محمد رومی کو گزرے آٹھ سو برس ہوگئے مگر ان کی مثنوی مولوی معنوی آج بھی دماغوں کو روشن کررہی ہے، غالباً بارہویں جماعت میں صوفی کا کلام پڑھنا شروع کیا، کچھ سمجھ آیا اور بہت کچھ نہیں آسکا، رومی اس سلیقے سے اشعار میں مثالوں کے موتی بُنتے ہیں کہ ان کی شاعری دلہن کی طرح سجتی ہے۔ ایک جگہ کہا “بانسری کی صدا سنی ہے، اُس کا سوزوگداز محسوس کیا ہے، بانسری بانس سے جدا ہونے کا درد کان میں اُتار رہی ہے، بانسری کہتی ہے جب سے بانس اور جنگل سے جدائی کا روگ لگا، ان سے بچھڑی ہوں بس رو رہی ہوں اور میری آواز نے ہر انسان کو رونے پر مجبور کردیا ہے۔ میں ایسا سینہ ڈھونڈ رہی ہوں جو دکھوں سے بھرا ہو تاکہ میں اُس پر اپنے راز کھول دوں کیوں کہ دُکھی کی بات صرف دکھی سمجھ سکتا ہے۔ بانسری اپنی سرگزشت ہر محفل میں سناتی ہے، چاہے وہ بیٹھک خوشی کی ہو یا غم کی۔ درحقیقت بانسری پیغام دے رہی ہے کہ اپنی بنیاد سے کٹنے والا دن را ت بے چینی کے بھنور میں رہتا ہے۔ اور اس کی پلکیں بھیگی رہتی ہیں، اپنوں کو کبھی نہ چھوڑنا ورنہ بدسکونی کا خنجر زخمی کردے گا، صوفی نے مختصر لفظوں میں زندگی کا راز کھول دیا۔ رومی کہتے ہیں کبھی اپنی اصل سے قدم نہ اُکھڑنے دو اور یہ اصل خدا کی ذات ہے، خدا سے دامن نہ چھڑاؤ ورنہ ہمیشہ بانسری کی طرح اپنا نوحہ سناتے رہو گے، ہرشام اپنا رونا روتے رہوگے، تکلیف تمہارا طواف کرتی رہے گی۔ ایک قطرہ سمندر سے جدا ہوکر بادلوں میں بسیرا کرتا ہے لیکن پھر زمین پر آتا ہے، دریاوں اورجھیلوں میں جاتا ہے۔ اسے کہیں سکون نہیں ملتا اور پھر سمندر میں جاکر قطرے کو راحت نصیب ہوتی ہے۔ انسان کی روح خدا کے قریب ہے، جب انسان خدا سے دور جاتا ہے تو ذہن میں گردش کرتی فکر اسے آسودہ نہیں ہونے دیتی۔ مولانا رومی کہتے ہیں دوستوں نے میرے باطن کو تلاش نہ کیا۔ میرا بیان ہی میرا راز تھا۔ جسم میری روح سے جدا نہیں ہوسکتا پر افسوس کوئی میری روح تک کوئی نہ پہنچ سکا۔ جیسے بانسری کہتی ہے کہ بانس سے جدائی کی تکلیف میرے سامعین نہیں جانتے اسی طرح رومی کہتے ہیں کہ مجھ سے ملنے والے میرے باطن سے آگاہ نہیں ہیں۔ ہر انسان راز کا ذخیرہ ہے جسے وہ چھپائے پھرتا ہے۔ بانسری میں لا تعداد گیت پوشیدہ ہیں ایک گیت سن کر تمام سروں کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا اسی طرح ہر انسان کے سینے میں راز کا ایک خزانہ ہے۔ آدمی کیلئے دوسرے آدمی کے باطن کو جاننا مشکل امتحان ہے لیکن اہل نظر کیلئے دیواریں معنی نہیں رکھتیں، ان کے آگے پردے اہمیت نہیں رکھتے، جن کے اندر کا نور زندہ ہے وہ دوسرے کے نور کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔

مولانا سمجھاتے ہیں کہ جو زندگی کے ساتھ اپنا تعلق دریافت کرلیتا ہے وہ حیات کی باریکیاں سمجھ لیتا ہے۔ جوانسان باطن کو جان لے حقیقت اس پر آشکار ہوجاتی ہے۔ انسان خود کو سمجھ لے تو کائنات کے اُلجھے ہوئے راز سُلجھ جاتے ہیں۔ مولانا رومی مزید کہتے ہیں کہ جب زندگی خوشیوں سے محروم ہوجائے تو وہ مقصد کی طرف بھاگتی ہے۔ ہزاروں دانہ جانتے ہوں گے زندگی کیسے اور کس لئے گزارنی ہے لیکن ان کے لئے بھی اس سوال سے نجات ممکن نہیں کہ زندگی صحیح گزر رہی ہے یا نہیں۔ زندگی کو “لاحاصل” پُکارتے لوگ دراصل وقت کو لمبی قبر بنا بیٹھتے ہیں، ان کے لئے دنیا دلچسپی سے خالی ہے۔ راحت اور سکون ضروری ہے مقصد نہیں۔ کبھی کبھی مقصد کے متلاشی زندگی کو دکھ سے بھر لیتے ہیں۔ حیات کا مقصد تلاش کرنا بیماری ہے جس سے چھٹکارہ ممکن نہیں۔ امید ٹوٹنے پر دل غم سے بھر جاتا ہے ہاں مگر بہت کچھ پالینے کے بعد کبھی کبھی انسان کو احساس ہوتا ہے یہ “اتنا ضروری بھی نہ تھا” مولانا رومی “آزادی” پر بھی تبصرہ کرتے ہیں۔ آزادی سے لطف اندوز ہوناچاہئے ناکہ انسان سونے اور چاندی کا قیدی ہوجائے۔ حرس کا پیالہ کبھی بھر نہیں سکتا۔ یہ جھوٹے سراب ہیں جو بدسکونی پیدا کرتے ہیں۔ ایک پیالے میں سمندر کا پانی نہیں آسکتا۔ پیالے میں سمندر کو بھرنے کی کوشش بے چینی پیدا کرتی ہے۔ غور کیا جائے تو آج کا انسان بے قراری میں جکڑا ہے، وجہ ضرورت سے زیادہ مال کی طلب، انسان دنیا کو حقیقت سمجھ کر تا عمر بھٹکتا رہتا ہے۔ انسان کیلئے آزادی ناگزیر ہے، انتہائی دولت کی طلب سے آزادی، دوسروں کی خامیاں ٹٹولنے کی فکر سے آزادی، خبط اور دیوانگی کو خوراک دینے سے آزادی، شور کرکے اپنا وجود منوانے سے آزادی، بدگمانی، شک اور ضد سے آزادی ہی سکون کی راہیں ہموار کرتی ہے۔ رومی کہتے ہیں کہ سورج اور چاند کرنیں بکھیرنے میں تفریق نہیں کرتے اسی طرح ایک انسان کو بھی چاہئے کہ وہ سب کے بارے میں ہمدردی، ایثار اور قربانی کا رویہ اختیارکرے۔ تعصب، نفرت اور انا کا بستر لپیٹ کر کیوں نہ رومی کی بات مانی جائے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں