احساسِ کمتری اور ہم

0
160

تحریر: محمد شعیب یار خان

کرہ ارض پر بسنے والےتمام ممالک ثقافت، تہذیب، زبان، رنگ، موسم، غذائیں، رہن سہن رویے میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں، کچھ باتوں میں مشابہت ضرور پائی جاتی ہیں مگر ایسا نہیں کہ مغرب اور مشرق ایک سے ہوں یہ جو سرحدوں میں باڑ لگائی جاتی ہے وہ بھی بظاہر یہی سمجھاتی ہے کہ آپ ادھر ہم ادھر، آپ اپنے ذمہ دار ہم اپنے۔

کوئی ملک اعلی تہذیب یافتہ ہے توکوئی ترقی یافتہ کسی ملک کی صدیوں کی تاریخ اس کی تہذیب کی گواہ تو کوئی ملک نووارد جسے سنبھلنے کے لئے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ خیر یہ ایک طویل موضوع ہے بات کہنے کی یہ ہے کہ جب ایسا ہے تو ہم مغرب سے اتنے متاثر کیوں ہیں۔ ہمارے معاملات کل بھی ہمارے تھے، آج بھی اپنے مسائل ہمیں خودہی حل کرنے ہیں مگر ہمارے ملک میں عام مثال مغرب کی دی جاتی ہے، کوئی حادثہ ہوجائے تو کہا جاتا ہے کہ اگر مغرب میں یہ ہوتا تو وزیر مستعفی ہوجاتا، کوئی قدرتی آفت ہمیں گھیرلے تو وہاں اگر ایسا تو یوں ہوتا، مغرب میں تو یوں ہوتا ہے مغرب میں ایسا ہوتا ہے اور کمال بات یہ ہے کہ ہمیں اس کمتری کا احساس دلانے والے سیاستدان جب خود اقتدار میں ہوتے ہیں تو وہ مغربی ممالک کے دوروں کے علاوہ کچھ یاد نہیں رکھتے، محض اقتدار سے باہر ان کو مغرب کی تعمیر و ترقی تہذیب تمدن، انصاف، انسانیت کا درد ستاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہمیں سیکھنا چاہئیے ان کی اچھائیاں، ترقی کے راز، احساس ذمہ داری ضرور سیکھنا چاہئیے لیکن ان سے احساس کمتری میں رہتے ہوئے نہیں کیونکہ اس احساس کے ساتھ ہم صرف غلام بن سکتے ہیں، ہمارا اپنا خوبصورت مذہب چودہ سو سال پہلے ہی ہمیں جینے سے مرنے تک اور درمیان کے تمام علوم سکھا چکا ہے۔ جس کے ذریعے ہمیں سب بتا دیا گیا کیسے سیاست کرنی ہے، آپس کے معاملات کیسے رکھنے ہیں حصول رزق کی کیا شرائط ہیں، انسانیت کتنی اہم ہے ریاست کیسے چلانی ہے، غرض الف سے ی تک سب انتہائی تفصیل سے بتا دیا گیا ہے، سب پہلے ہم اپنے مذہب سے دوبارہ سب کچھ سیکھیں جو ہم بھول چکے ہیں سیاست، معیشت، معاشرت، رہن سہن، عادت و اطوار سب دوبارہ سے سیکھیں۔ بار بار سیکھیں ریاست اسے لازم کردے کہ سیکھو نہیں تو سزا ملے گی اور سیکھ کر عمل کرنا قانون بنا دیں پھر کیسے ممکن ہے کہ ہمیں کسی اور کی محتاجی ہو ہم کسی غیر کی مثال دیں اسے اپنا آئیڈیل بنائیں۔

معاملہ کچھ یوں ہے کہ ہمیں غلام بنایا گیا ہے ہم تھے نہیں ہمیں اوروں کی تہذیب رہن سہن کو ایک خوبصورت غلاف میں سجا کر دکھایا گیا جبکہ اپنے خود کے مذہب میں بے تکے عیب نکال نکال کر اسے کمتر ظاہر کیا گیا، مذہب پر عمل کرنے والے کو  شدت پسند، داڑھی رکھنے والے کو مولوی، تنگ نظر ظاہر کرکے سب کو ایک صف میں کھڑا کردیا گیا، اپنی برائیاں اور غیروں کی ظاہری نمود کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا کہ احساس کمتری کئی دہائیوں سے پروان چڑھتی گئی جب کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ سب میں اچھائیاں برائیاں موجود ہے مگر عصر حاضر کے مسلمانوں نے خود کو کمتر ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

گزشتہ دنوں فرانس میں بدترین ہنگامہ آرائی کیا ان کے مہذب ہونے کی دلیل ہے؟ یہی اگر پاکستان میں ہوتا تو باھر سے زیادہ مقامی کالے انگریز آسمان سر پر اٹھادیتے۔ کیا امریکہ سمیت یورپی اور غیر مسلم ممالک میں خواتین کے ساتھ ہونے والے لاتعداد زیادتی کے مسلسل واقعات، آئے دن اسکولوں میں فائرنگ میں معصوم بچوں کا قتل عام، سیریل کلنگ میں اضافہ، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں سے ان کا غیر مناسب رویہ، جرائم کے نت نئے انداز، موسمی تبدیلیوں کے خطرناک اثرات اور تباہ کاریاں، اخلاقی پستی کی انگنت داستانیں مغرب کو احساس کمتری میں مبتلا کرتی ہے؟ نہیں۔۔ ۔ بلکہ ہم میں ان میں فرق یہ ہے کہ وہ ان واقعات کی درستگی کے لئے لائحہ عمل بناتے ہیں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے مسلسل کوششیں کرتے ہیں نہ کہ ان حادثات کے ترانے بجاکر اپنے لوگوں، اداروں کی تذلیل کرنے میں وقت ضایع کریں۔ جزا اور سزا کے عمل کو یقینی بنا کر انصاف کو تیزی سے لاگو کرتے ہیں۔ ہر معاشرے میں غلط کو غلط ہی کہا جاتا ہے اپنی کمیوں کوتاہیوں کا پرچار صرف غلام ذہنیت ہی کی عکاسی کرتی ہے جس میں ہم کسی سے پیچھے نہیں۔ ایسا کیا ہے جو درست نہیں ہوسکتا۔ مسلمانوں کا عروج ان کے زوال سے طویل ہے۔ ہمیں خود کو درست کرنا ہوگا دین پر عمل سے اپنے ماضی کی عمدہ مثالوں کو کتابوں سے نکال کر حقیقی زندگی میں لانا ہوگا عمل کرنا ہوگا پھر ہی ہم درست سمت پر چل سکتے ہیں ورنہ تو ایسے ہی دوسروں کی نقل اور احساس کمتری میں اور کتنی پستی میں جائیں گے معلوم نہیں!!!۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں