آزاد نہیں، آہ ذاد ہیں ہم

0
84

تحریر: صائمہ شیرازی

کیسی آزادی جہاں غریب انسان کی کوئی آواز ہی نہیں۔ جہاں انصاف ملنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ جہاں عورتیں کیا اور بچے بھی درندوں کی ہوس کا نشانہ بنتے ہیں۔ ٹی وی چینل اور بلاگر ان معصوم بچوں سے کیمرے پر ریٹنگز، اور لائکس لینے کے لیے پوچھتے دکھائی دیتے ہیں کہ ‘اور بیٹے انکل نے کیا کیا آپ کے ساتھ’؟ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے ہم سب کے لیے، جہاں اب تک ہم شیعہ سنی کی بحث سے ہی نہیں نکلے ہیں۔

کہنے کو تعلیم یافتہ اور قابل استطاعت لوگ جو کچھ کرنے کے قابل ہیں، بس سیاسی گفتگو میں گم ہیں، جس سے فائدہ غریب اور بے آواز عوام کا کچھ بھی نہیں ہونا، جو کبھی ڈالر چھاپتی ‘این جیوز’ کبھی ‘پاور ہنگری’ اور اقتدار کے نشے میں دھت سیاستدانوں کے جلسوں میں سخت گرمی میں بھیڑوں کی طرح ایک وقت کی روٹی کھانے کے لئے جھلستے نظر آتے ہیں۔ بس انہیں استعمال کرو۔

1947 میں جو دردناک واقعات پیش آئے ہم اسی ‘ٹراما’ کی پیداوار ہیں ہم۔
علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد جناح نے جو خواب، اُس کی تعبیر ہمارے ہاتھوں میں سونپی اس کا گلا گھوٹنے کے گناہ گار ہیں ہم۔
شرمناک بات یہ ہے کے ہم مانتے ہی نہیں کہ شرمسار ہیں ہم۔
بہت ساری آہ ہوں کی پیداوار ہیں ہم۔
آزاد نہیں، آہ ذاد ہیں ہم۔
پوری قوم کو اپنی حقیقت سے لا تعلقی اور بے حسی پر سرعام سلام۔
کیونکہ بہت ہی قابل احترام ہیں ہم۔

مہنگائی کے دن بدن بڑھتے بوجھ تلے غریب اور مزدور طبقہ کی گریہ ذاری سے بھر پور آہ ذادی مبارک۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں