سندھ پولیس کے جوان اپنی شناخت سے محروم

0
63

تحریر: سمیر قریشی

ابھی تک تو ہم نے یہ سنا تھا کہ بنگالی، برمی اور افغانی جو کراچی میں پناہ گزین ہیں وہ اپنی شناخت سے محروم ہیں لیکن باعث شرم بات یہ ہے کہ ہمارے صوبے کے اہم ترین ادارے میں کام کرنیوالے لوگ ہی اپنی شناخت نہیں پاسکے۔ یہ ذکر کسی اور محکمے کا نہیں بلکہ سندھ پولیس کا ہے جس کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد افسران اور جوانوں کو محکمے نے سروس کارڈز ہی فراہم نہیں کیے۔

صورتحال یہ ہے کہ پولیس والوں کو اب اپنی شناخت کرانے میں بھی دشواریوں کا سامنا ہے، لیکن اس معاملے کے دو پہلو ہیں ایک منفی اور ایک مثبت، منفی پہلو پر نظر ڈالی جائے تو ماضی میں ایسے کئی ملزمان گرفتار ہوئے جن کے پاس پولیس کے جعلی کارڈز برآمد ہوئے پہلے کارڈز بنانے کا اختیار ڈی آئی جی یا ایس ایس پی کو ہوا کرتا تھا لیکن پھر ملزمان کے پاس سے جعلی کارڈز برآمد ہونے کے بعد سابق آئی جی سندھ مشتاق مہر نے ایک کمپیوٹرائزڈ عمل شروع کیا۔ اس مد میں باقاعدہ نیشنل بینک میں فیس بھی جمع کرائی گئی اور کہا گیا کہ اب تمام سروس کارڈ کو آفیشل طور پر جاری کیا جائیگا، سی پی او میں کیمرے بھی لگائے گئے مگر اس تمام پراسس کے بعد بھی پولیس افسران اور جوانوں کو مکمل طور پر کارڈ میسر نہیں ہوسکے۔

اس انکشاف کے بعد جب سابق ڈی آئی جی طاہر نوید سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ پوری دنیا میں شناخت کے بغیر نقل و حرکت ممکن نہیں ہے۔ ملٹی نیشنل ادارے ہوں یا کارپوریٹ سرکل تمام ادارے اپنے ملازمین کو آفیشل کارڈز جاری کرتے ہیں انھوں نے کہا کہ جس طرح آج ہم دہشتگردی کی لپیٹ میں ہیں ایسی صورتحال میں نہ صرف شناخت ضروری بلکہ سروس کارڈز پر بین الاقوامی طریقہ کار کے مطابق کوئی بار کوڈ یا ورڈ دیا جائے کہ جس سے اس کا غلط استعمال اور جعلی کارڈ بننا ممکن ہی نہ ہوسکے۔ انھوں نے کہا کہ جس طرح مسلح افواج اور دیگر حساس اداروں میں کارڈ گم ہوجانے پر لاپرواہی کا مقدمہ درج کیا جاتا ہے اسی طرز کا سسٹم سندھ پولیس کو بھی شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جرائم کو بھی روکا جاسکے، لیکن اب آئی جی سندھ غلام نبی میمن جوکہ پولیس کو صحیح رخ پر لانے کے لیے سرگرم ہیں ان کو چاہیے کہ وہ اس میں اپنا اہم کردار ادا کرکے پولیس کے جوانوں کو پولیس کے سروس کارڈز جاری کرکے ان میں پائی جانے والی بےچینی کو ختم کریں کیونکہ ایک تو یہ ان کا بنیادی و ادارجاتی حق ہے دوسرا ڈی ایس پیز آج تک انسپکٹرز اور انسپکٹرز سب انسپکٹرز کے پرانے کارڈز استعمال کر رہے ہیں جبکہ اس رقم کا کیا ہوا جو بنک میں جمع کرائی گئی تھی اس کا بھی کوئی جواب نہیں ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں