پاکستان کے خلاف ففتھ جنریشن وار کے آخری مراحل

0
151

تحریر: ایم نجم فاروقی

پاکستان مسلم ممالک میں واحد نیوکلیئر پاور رکھنے والا، اپنے جغرافیائی محل وقوع اور معدنی وسائل کے حساب سے دنیا کا بہت ہی اہم ملک ہے، اسلام کا قلعہ ہونے کے ناطے پاکستان کے وجود میں آتے ہی یہ غیر مسلم دنیا کو کھٹکنے لگا تھا، اور چند سرحدی تنازعات کے باعث ہمسائے مسلم ممالک کی اکثریتی عوام بھی ہم سے کافی عداوت رکھتی ہے جس کے مثالیں گاہے بگاہے نظر آتی رہتی ہیں، مزید برآں یہ کہ پاکستان کی چاروں اطراف سرحدیں جنگی اعتبار سے دنیا کی سب سے زیادہ خطرناک سرحدوں میں سے ایک ہیں جن کے ایک طرف ہمارا علی اعلان سب سے بڑا دشمن بھارت ہے، دوسری جانب افغانستان جو بظاہر تو دوستی کا دعویٰ کرتا ہے مگر دوسری جانب اس کی طرف سے پیٹھ میں خنجر گھوپنے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے، تیسری طرف ایران ہیں جو بھارت کی ایما پر اکثر ہمیں نقصان پہنچانے کے درپے نظر آتا ہے، چین سے ملنے والی سرحد اگرچہ ہمارے لئے باعث سکون ہے مگر وہ ان طویل سرحدوں کے مقابلے میں کافی نہیں، مگر پاکستان کیلئے خطرات یہیں ختم نہیں ہوتے۔ دنیا میں کسی بھی ملک کو تباہ کرنے کیلئے بنائی جانے والی عسکری ڈاکٹرائنز میں سے سب سے زیادہ ڈاکٹرائنز بھی پاکستان کیخلاف ہی بنائی گئی ہیں، لیکن ان سب کے باوجود بھی ہمار ملک ہر چیلنج سے سرخرو ہوکر ابھرا ہے، اب دشمنوں نے ایک ایسی جنگ چھیڑ رکھی ہے جو ہمارے اکثریتی عوام کے نزدیک جنگ ہے ہی نہیں، جی ہاں! یہ بالکل سچ ہے اور یہ جنگ اب اپنے آخری مراحل میں بھی داخل ہوگئی ہے مگر ہمارے ملک کے عوام ابھی تک اس عفریت سے ناواقف یا پھر یہ کہہ سکتے ہیں حسب عادت بلی کے حملے کے وقت آنکھیں بند کرلینے والے کبوتر بنے ہوئے ہیں۔ دشمن اب ہمارے گھروں کے اندر پہنچ چکا ہے، اس جنگ کو دنیا ففتھ جنریشن وار سے جانتی ہے۔

اس حوالے سے آپ کو آگاہ کرتے ہوئے بتاتا چلوں کہ اس جنگ میں دشمن خاموشی سے کسی بھی ملک کی تین اہم لائف لائنز کو تباہ کردیتا ہے، پاکستان کے پاس اللہ نے ان تین لائف لائنز کے علاوہ ایک اور لائف لائن عطا کی ہوئی ہے جو ہمارے دشمنوں کو سب سے زیادہ کھٹکتی ہے وہ ہے ہمارا نیوکلیئر پاور ہونا، تو بات کرتے ہیں ان تین لائف لائنز کی جس میں سب سے پہلے تو اس ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جاتا ہے جس میں دنیا میں موجود دجالی طاقتیں اور اس ملک میں موجود غداران سے مدد لی جاتی ہے، جس کے باعث اس ملک کا پڑھا لکھا اور سلجھا ہوا طبقہ یا تو ملک چھوڑ دیتا ہے یا پھر اس کیخلاف ہوجاتا ہے اور غریب کو عوام تو دو وقت کی روٹی کے حصول میں کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا ہوتا، اس کے بعد اس ملک کے دفاع اور دفاعی اداروں کو نقصان پہنچانے کا نمبر آتا ہے، اس میں ملک میں موجود چند عناصر کو بیرونی فنڈنگ کے ذریعے ملک کے دفاعی اداروں کیخلاف عوام کو بھڑکانے کا ٹاسک سونپ دیا جاتا ہے، جیسا کہ ہمارے کئی برادر مسلم ممالک میں دجالی طاقتیں یہ منصوبہ آسانی سے انجام دے کر ان کو اپنے جال میں پھانس چکی ہیں ان میں عراق اور لیبیا سر فہرست ہیں، اس کے بعد ملک میں خانہ جنگی، دہشت گردی، انتہاپسندی کو فروغ دینے، معاشرے میں عدم برداشت کو بڑھاوا دینے کی ہتھیار استعمال کئے جاتے ہیں۔ جس سے معاشرہ تباہی کی جانب گامزن ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ساکھ کھونے لگا ہے۔ امید ہے اب آپ اس قسم کے جنگی ہتھکنڈوں کو کچھ حد تک سمجھ گئے ہونگے، تو اپنے ملک کے حالات پر نظر دوڑائیں، آپ کو اس وار فیئر کی عوامل موجود نظر آئینگے، اور ان عوامل کو ہمارے معاشرے میں سرایت کرنے کیلئے دشمنوں کے باعث سب سے زیادہ مہلک ہتھیار بے لگام جعلی خبروں کا گردش کرنا، سوشل میڈیا پر عوام خصوصاً نوجوانوں کی ملک کیخلاف ذہن سازی، ملکی اداروں خاص طور پر افواج کیخلاف عوام میں نفرت بھرنا شامل ہیں۔

تو بات اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے ملک میں جاری اس جنگ میں دشمن نے اب ہم پر حتمی وار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے مگر حسب توقع ہماری عوام اب بھی غفلت کی نیند سو رہی ہے، گزشتہ سال حکومت کی تبدیل کے ساتھ ملک کی معاشی حالت اس حد تک خراب ہوگئی ہے کہ ہمیں آئے روز ہم دیوالیہ ہونے کی خبروں کا سامنہ رہتا ہے، ساتھ ساتھ ملک میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر کا بھی آغاز دیکھنے میں آیا ہے، دوسری جانب سیاسی تفریق بھی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ہم اپنی نظریاتی جماعتوں کے علاوہ کسی کو صحیح سمجھنے کیلئے تیار نہیں، وہیں فروعی تقریق اور عدم برداشت بھی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ لگتا ہے کوئی کوئی لاوا پک کر اپنے پھٹنے کا انتظار کررہا ہے، دوسری جانب حکومت کے زرمبادلہ ذخائر اس حد تک ہم ہوچکے ہیں کہ ہم اپنے دوست ممالک اور آئی ایم ایف کے رحم کرم پر آچکے ہیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دجالی قوتیں ہم سے وہ سب منوانا چاہتیں ہیں جس سے ہم مزید کمزور ہوسکیں اور وہ تر نوالہ سمجھ کر ہمیں ہڑپ کرلیں، ان کا سب بڑا نشانہ ہمارے ایٹمی اثاثہ جات ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ ان حالات میں وہ ہمیں مدد کرنے کا دلاسہ دیتے ہوئے اس سے دستبردار ہونے کا بھی کہہ دیں، مگر بات یہاں تک پہنچی کیسے؟ اس کا جواب ہمیں اپنے ضمیر سے پوچھنے پر ہی ملنے والا ہے ،کیونکہ زندہ قومیں اپنے بجائے قوم کے مفادات اور آنے والی نسلوں کا سوچتی ہیں مگر کیا ہم نے ایسا کیا؟ یہ سوال ہم سب کیلئے ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں