گلیمرز کا کلائمکس’ پیار و محبت میں بہتر کی تلاش

0
55

تحریر: مدثر غفور

دل ہے کہ ایک جگہ ٹکتا نہیں اور دماغ ہے کہ پیار و محبت میں بہتر کی تلاش میں رہتا ہے۔ ایک ہی نظر میں پیار و محبت کا ہوجانا سب جنسی جزبات کا دھوکا ہے اور پھر یہ مذاق میں یہ کہہ دینا کہ آپ کے دوست کہیں مجھے پسند نہ آجائیں یا پھر میں نے کئی لڑکوں کو دیکھا جو پسند آئے لیکن میں پہلے کمیٹڈ ہوچکی تھی سوائے مستقبل میں پچتاوے کے سوا کچھ نہیں۔ اس معاشرے میں مرد ہو یا عورت دونوں ہی بہتر کی تلاش میں ہیں وہ محبت ہو، کوئی رشتہ، یا کوئی پیشہ ہائے زندگی مگر یہ سب وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ایک ڈائیلاگ بہت خوبصورت یاد آیا کہ ‘جس نے پا لیا اس نے قدر نہیں کی جس نے پا لیا اور اسے کھو دیا’ جس نے نہیں پایا وہ بھٹک گیا اور تلاش میں ہے۔ گلیمرز کی دنیا ہے اور ہر شخص چاہئے وہ کوئی ایکٹر ہو، سلیبرٹی، فلم اسٹار، اسپورٹس مین یا پھر عام زندگی گزارنے والا ہو وہ ہمیشہ بہتر کی تلاش میں بھٹک رہا ہے۔

محبت کی قدر بہت کم لوگ کرتے دیکھے جو نبھاسکے اور امر ہوگئے۔ اکثریت کو لٙو کو آرینج میرج کرتے دیکھا اور ایک ماہ بعد پیار ٹھنڈا (جنسی تسکین) پوری ہونے پر الگ ہوتے بھی دیکھا جس میں اکثریت مردوں کی ہے۔

جب کوئی عورت مجازی خدا کا انتخاب کرتی ہے تو پھر شرک کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے جب خدا کے مقابلے میں ہی دوسرا خدا کھڑا کردیا جائے تو شرک کی تعریف ہی بدل جاتی جیسے مجازی خدا بدل جاتا ہے۔ مجازی خدا کی موجودگی میں کسی بھی جگہ وہ ٹی وی شو ہو یا کسی ملاقات میں کسی ایک کے زبان کے پھسلنے سے تعلق میں دراڑ کی بنیاد پڑ جاتی ہے، چاہئے صفائیاں دیں، معافیاں مانگیں دراڑیں کم ہونے کے بجائے گہری ہوتی رہتی ہیں جو تعلق کا خاتمہ کردیتی ہیں۔

پیشہ ورانہ زندگی میں پیار و محبت بھی گلیمرز کی طرح ہے جو کبھی کلائمکس دکھاتا ہے۔ جس کی سینکٹروں مثالیں اس معاشرے میں موجود ہیں اور جن کی عکاسی مختلف ڈراموں فلموں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اسی طرح ڈپیکا پڈوکون کا ایک شو میں ‘کلائکمس’ بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے، بالی وڈ اداکارہ دیپیکا پڈوکون کا ‘کافی ود کرن’ شو میں اپنے شوہر و اداکار رنویر سنگھ کے ساتھ محبت کے رشتے میں منسلک ہونے کے باوجود دیگر مردوں سے ملاقات کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ ‘میں نے بہت سے دوسرے لڑکے دیکھے لیکن میرے دماغ میں تھا کہ میں اس (رنویر سنگھ) سے کمیٹڈ ہوں’۔ اب وہ باتوں میں مگن رہنے میں زبان کا پھسلنا تھا اور رنبیر کو احساس دلانا تھا کہ اس لئے کچھ نہ کر سکتی، مجبور تھی’ شائد یہ پیار کا اظہار کرتے ہوئے احساس دلانا تھا یا رنویر سنگھ کو اپنے مستقبل کی پلاننگ بارے آگاہ کرنا تھا۔

تعلق جب قائم ہوتا ہے تو اس تعلق میں معاہدہ کیا جاتا ہے اور معاہدے میں ‘بہتر کی تلاش’ جیسے لفظ کو ختم کرکے اچھائیوں برائیوں سمیت قبول کیا جاتا ہے تاکہ نبھا ہوسکے اور وقت گزار کر اگلی منزل کی جانب رواں دواں ہوجائیں لیکن اس بے قدر معاشرے میں منزل بھی کہیں کھوگئی ہے۔ گلیمرز میں اب تو کئی منازل ہیں جن کا انتخاب کرنا دشوار ہے جس کا اظہار دیپیکا پڈوکون نے کیا ہے۔ اس معاشرے میں ایسے کئی اظہار روزانہ کہیں نہ کہیں ہورہے ہیں جس کی وجہ سے تعلقات قائم اور تعلق ختم ہورہے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں