غریب سے فقیر تک کا سفر

0
143

تحریر: محمد شعیب یار خان

پاکستان کرہ عرض پر موجود شاید وہ انوکھا ملک ہو جس کی عوام نے آج تک کبھی اپنے بنیادی حقوق کی عدم دستیابی پر کوئی آواز بلند کی ہو یا کوئی منظم احتجاج کیا ہو۔ ہمیشہ ایک ہجوم کی شکل میں جس نے جو بتایا جو کہا جو پڑھادیا اس کے پیچھے ہولیے نہ اپنی کوئی مرضی نہ اختیار بس اپنے مسائل کے حل کے سوا ہر کسی کی فکر۔ آج سپریم کورٹ میں کیا ہوا، فلاں کو سزا ہوئی یا کمبخت کوئی رہا کیسے ہوگیا، انتخابات کب ہوں گے آخر ہو کیوں نہیں رہے فکر مند ہیں کہ نگراں حکومت کی تشکیل درست ہوئی کہ نہیں، الغرض ہمیں کرکٹ ٹیم کی سلیکشن سے لیکر آئیندہ ہونے والے الیکشن کی فکر کھائے جاتی ہے مگر اپنے حقوق کے حصول اور مشکلات کے خاتمے کی کوئی پرواہ نہیں۔

ہم سب نے ایک دوسرے کی نقل اور اندھی تقلید میں سیاستدانوں کو اپنا لیڈر اور مسیحا سمجھنا شروع کردیا جنہیں ہماری فکر ہی نہیں اور علم ہی نہیں کہ ان سیاستدانوں، حکمرانوں کے سکھ اور آسائشوں اور اقتدار کی خواہشات کے لئے ہم اپنی کمر تک تڑوا چکے ہیں۔ ان کے آپسی جھگڑے مفادات کی سیاست اور اقتدار کی ہوس نے غریب کو کہیں کا نہ چھوڑا، یہ الیکشن آنے سے قبل عوامی ہمدرد اور اقتدار ملتے ہی مجبور و لاچار ہوجاتے ہیں۔ یہ اتنے مجبور ہیں کہ عوام کے پریشانیوں اور درد کو کم کرنے کے لئے ان پر مزید ٹیکسز، مہنگائی بےروزگاری کا بوجھ بڑھا بڑھاکر بھی مظلوم بن جاتے ہیں اور پاکستانی عوام تو ہے ہی بکھرا ہوا بے ترتیب غیر متحد ہجوم۔ جسے علم ہی نہیں کہ 2018 سے اب تک بجلی، گیس، پٹرول کے نرخوں میں سیکڑوں فیصد اضافہ ہوا۔ اشیائے خورونوش، آٹا، دال، چینی، چاول، آلو، پیاز ہر طرح کا گوشت ہر روز استعمال ہونے والی اشیاء سے لیکر ٹرانسپورٹ کے کرائے تک میں کئی گنا اضافے کے ساتھ ہی غریب کی پہنچ سے دور ہوگیا۔ اور تو اور بجلی کے بلوں نے تو ایسی تباہی مچائی ہے کہ بل کے خیال سے ہی خوف آنے لگا ہے۔ جتنی تنخواہ اس سے زائد کا بل ہوچکا ہے مجبوراً بل جمع نہ کراؤ تو متعلقہ ادارے کی ٹیم بجلی منقطع کرنے میں منٹ نہیں لگاتی چاہے، آپ نے زندگی بھر ان کے ناجائز ٹیکسز شدہ بل کی ادائیگی میں کبھی ناغہ نہ کیا ہو بجلی تو گائے بگائے آتی ہے لیکن اضافی بل مستقل بنیادوں پر دل دہلانے آتا ہے۔ لوڈشیڈنگ اور ٹیکنیکل فالٹ کا شکار صارف بجلی کے بلوں سے ذہنی و قلبی مریض بن چکا ہے۔

اب تو حکمرانوں نے ادویات کی قیمتوں پر بھی کنٹرول کھو دیا ہے آج جان بچانے کے لئے بھی ہاتھ پھیلانے کی نوبت آچکی ہے۔ دوائوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، اسکول کی ہوشربا فیسوں سے لیکر گھر کے بڑھتے کرائے تک کئی گنا اضافے کے بعد بچوں کو پڑھانے سے گھروں میں رہنے تک کے قابل نہیں رہے۔ بچوں کی خواہشات تو دور ان کی جائز ضروریات پوری کرنے کے لالے پڑچکے ہیں۔ اس پر ظلم جو تھوڑا بہت بچالیں یا مانگ لیں۔ اسے اسٹریٹ کرمنلز اور ڈکیت چھین کر لے جاتے ہیں، مزاحمت پر دھڑلے سے مار دیا جاتا ہے، کیوں پکڑے جانے یا سزا کا خوف اس ملک میں صرف شریف یا غریب کو ہے۔ آمدنی کے ذرائع نہ ہونے کے برابر مگر اخراجات کا جن بے قابو ہوچکا ہے اس وقت یہ ہجوم مایوسیوں کے دلدل میں دھنس چکا ہے۔ جن کے پاس کچھ مال و متاع بچا ہے وہ ملک سے بھاگ رہے ہیں کیوں کہ ڈالر بھی بے قابو ہے۔

پاکستانی روپیہ غریب کے طرح شدید لاغر ہوچکا ہے دیگر کرنسیز روپے کو تواتر کے ساتھ نیچے دھکیلے جارہی ہیں۔ سڑکوں پر بھکاریوں اور عوام کی غربت بھگانے کے دعویدار جعلی پیر فقیروں کی تعداد میں اضافہ موجودہ صورتحال بہترین عکاس ہے۔ نوکری پیشہ افراد کی جو تنخواہ پانچ سال پہلے تھی آج بھی اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ماسوائے سرکاری ملازمین کے جنہیں اپنی تنخواہ کی ضرورت شاذونادر ہی پڑتی ہے، کیوں کہ غریب کا خون نچوڑنے میں یہ بھی کسی سے کم نہیں۔ ہم آئی ایم ایف ورلڈ بینک دوست ممالک کے اربوں روپے کے مقروض ہوچکے ہیں اور اتنے قرضوں کے باوجود بھی عوامی حالات اب قبر میں پہنچانے والے ہوچکے ہیں۔ جانے یہ قرضے کیوں لئے جاتے ہیں بڑھتی شدید مہنگائی غریب کو مزید برہنہ کرتی جارہی ہے۔ نہ جانے. بےجا اور ناجائز ٹیکسز کا نہ تھمنے والا سلسلہ کب رکے گا، کم ہونا تو شاید اب ممکن ہی نہیں۔

ان سب کے باوجود سوال یہ ہے ک کب یہ ہجوم قوم بن کر اپنے جائز مسائل اپنےحق کے لئے پرامن طریقے سے یکجا ہوکر خود سمیت ملک بچانے نکلے گا؟ آخرکب یہ انسانی سمندر اپنے مفاد اپنے بچوں کی زندگی بچانے، یکساں نظام انصاف کے حصول اور معیشت بحالی کے نام پر مسلسل زیادتیوں سے نمٹنے کے لئے ایک ہوگا۔ کب ہم اپنے لئے مؤثر، وزنی اور پر امن آواز بن کر اپنے مسائل کے لئے لڑنے والے بنیں گے۔ ہمیں مرنے کے لئے نہیں زندہ رہنے کے لئے یکجا ہونا ہے، کسی معجزے کے انتظار میں رہنے سے بہتر اجتماعی طور پر اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنا ہے۔ یہ ہمارا جمہوری، آئینی، انسانی حق ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہم ایک قوم بن کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں نہ کہ انفرادی جدوجہد میں شکاری کا شکار بن جائیں۔ ہمیں ہجوم سے قوم بننا ہی ہوگا یا پھر تھوڑی مہنگائی اور ہونے کا انتظار کریں غریب سے فقیر بننے میں دیر نہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں