ابھی سوچ بدلنی چاہیے

0
147

تحریر: ایڈووکیٹ زینب بلوچ (لکھاری اکثر موضوعات پر لکھتی رہتی ہیں اور پیپلز پارٹی خواتین ونگ ضلع خیرپور میرس کی صدر بھی ہیں)۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں شاہ محمود قریشی نے تقرير میں کہا کہ ماضی میں پیپلز پارٹی وفاق کا درس دینے والی جماعت تھی مگر آج صوبائيت کی بات کر رہی ہے اور یہ بات انہوں نے سیاسی دائو پیج کھیلتے ہوٸے پیپلز پارٹی کو صوبائی جماعت ثابت کرنے کی سازش میں کی يا نيک نیتی سے وہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ مگرمجھے یہ سن کر حیرت ہوٸی کہ وہ ایک میچور سیاستدان کہلانے والے وفاقی وزیر شاہ محمود کے ذہن پرعمران خان کیسے سوار ہوگئے اورانہیں  یہ بات کہنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کے خلاف بات کررہے ہیں يا ان کے منشور’چاروں صوبوں کی زنجير بينظير بينظير’ کے نعرے کی تائيد کررہے ہیں۔

باريک بينی سے دیکھا جاٸے تو پی پی نے وفاق کے لیے کیا نہیں کیا اور بدلے میں ابھی موجودہ وفاق نے کیا دیا۔ پیپلزپارٹی نے وفاق کو مضبوط رکنے کے لیے آئين دیا، صوبائی خود مختياری دی، ايٹمی ٹيکنالوجی لا کردی، بدلے میں وفاق اور صدر پاکستان آمر جنرل ضياء الحق نے آئين کو توڑا اور آٹھویں ترميم کے ذريعے صوبائی خود مختاری کو صلب کردیا۔

پیپلزپارٹی اور آئين پاکستان کے بانی شہید ذوالفقارعلی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھا کر شہید کیا گیا۔ پیپلزپارٹی کی کوششوں سے دوبارہ سابق وزيراعظم نوازشريف نے آئين میں 13 ترميم کرکے بحال کیا تو ان کو صدر پاکستان آمر پرویز مشرف نے قيد کرکے سزا دی اور ملک بدر کردیا۔ آئين کو 17 ترميم کے ذريعے توڑا اور صوبائی خود مختاری صلب کردی۔ آبدوز ٹيکنالوجی اور ميزائيل ٹیکنالوجی لا کر دینے والی بینظیر بھٹو کو بدلے میں لياقت باغ راول پنڈی میں گولياں مروا کر  شہيد کیا گیا۔

پیپلزپارٹی کے کوچیٸرمین و سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اپنے اختيارات پارليمینٹ کو سونپ دیے اور 8 اپريل 2010 میں 18 ترميم قومی اسمبلی میں 2/3 اکثریت سے پاس کرکے آئين بحال کیا۔ امريکا سے شمسی ایٸربیس خالی کروایا، پاک ايران گیس پائپ لائن معاہدہ کیا اور وفاق کی جانب سے ہمارے بلوچ بھاٸیوں سے کی گٸی زیادتیوں کی معافی مانگ کر ان کو قومی دھارے میں شامل کیا۔ بدلے میں وفاق نے ان کے اوپر کیس داخل کرنے سے قبل ميڈيا ٹرائل کروا کرگرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔

وفاق نے محروميوں کے علاوہ دیا کیا ہے. حمودالرحمٰن کميشن رپورٹ کے صفہ نمبر 573 پر لکھی تحرير کے مطابق 1965 کی جنگ میں بنگال صوبے يعنی مشرقی پاکستان کے دفاع وحفاظت کے لیے صرف ایک درجن فوج اور دو ايئر اسکوارڈن موجود تھے۔ وفاق کا تب کہنا تھا کہ مغربی پاکستان مغرب سے ہی بنگال يعنی مشرقی پاکستان کا دفاع کیا جاٸے گا مگر جب 6 ستمبر 1965 میں جہازوں نے ڈھاکہ اور اس کے قریبی علاقوں پر حملہ کیا تو مغربی پاکستان۔؟

جب مشرقی پاکستان والوں کو یقین ہوا کہ مغربی پاکستان ان کی مدد کے لیے نہیں آٸے گا تو انہوں اپنا دفاع خود کیا اور بھارتی فضاٸی اڈے پارٹی کلائی کنڈا پراچانک حملا کرکے بھارت کی زمین پر کھڑے جہازوں کو تباہ کیا۔ کہتے ہیں کہ جن کی حفاظت اللہ پاک خود کرتے ہیں اسے کوٸی نہیں مار سکتا کی طرح اگر چين اس موقعے پر بھارت کے اوپر پہل کرنے کا الزام نہ لگاتا اور سکم کی سرحد پر بھارتی فوجی تنصيبات کو تباہ کرنے کی دھمکی نہ دیتا تو بھارت مشرقی پاکستان کی زمين سے بنگاليوں کا وجود ہی مٹا دیتا۔

وفاق نے خود ان میں وہ احساس محرومی پیدا کی اور کس نے پيدا کی۔ پھر جب نواب زاده نصرالله خان نے 5 فروری 1966 کو آل اپوزيشن پارٹیز کا اجلاس لاہور میں بلایا تھا اور اس میں شيخ مجيب الرحمن نے 6 نکاتی ایجنڈا پیش کیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ فيڈرل پارليمانی نظام ہوگا، وفاق کے پاس صرف تین ادارے ہونگے فارن افيئر کرنسی، کرنسی پراختيارايسٹ ويسٹ ونگ دونوں کا ہوگا، بجٹ کی تقسیم آبادی کے تناسب سے کی جاٸیگی، صوبے خود مختار ہونگے وہ اپنے معاشی معاملات خود دیکھیں گے، ٹيکس کلیکشن اور ايکسپورٹ کے اختيارات صوبوں کے پاس ہی ہونگے، ايسٹ اور ويسٹ ونگ کی فوج بھی الگ الگ ہوگی۔

یہ شيخ مجيب الرحمن کا مطالبہ تھا ان کے ساتھ بات کرنے کی بجاٸے ان کو قید کرکے ان کے اوپرغداری کا مقدمہ داٸر کیا گیا جو کہ آگے چل کر پروسيڈنگ میں ثابت نہ ہونے کے خدشے کی بنا پر ختم کیا گیا۔ وفاق نے آخر صوبوں کے ساتھ ایسا رویہ کیوں اختیار کیا ہوا ہے اور ایسے رویوں کی وجہ سے بنگال تنگ ہوکر پاکستان سے الگ ہو گیا۔ ابھی بھی وہی راگ الاپہ جا رہا ہے کبھی قانون کے وفاقی وزير فروغ نسيم کراچی میں آرٹيکل 149 (4) کو نافذ کرنا چاہتے ہیں، کبھی 18 ترمیم پرنظرثانی کرنا چاہتے ہیں تو کبھی رول بيک کی بات کی جاتی ہے، کبھی گورنر سندھ عمران اسماعيل سے تو کبھی خرم شير زمان سے غير ذمہ دارانہ بيان دلواٸے جا رہے ہیں تو کبھی فیصل آباد کے اقرار الحسن کو سامنے لایا جاتا ہے۔

اب یہ سوچ اور رویہ ختم ہونا چاہیے اور اب یہ چغل خوریاں بند کرکے سندھ کے لوگوں کی تذلیل  کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پیپلز پارٹی بھی وفاق کے لیے کارگر ثابت نہ ہو سکے اور صوبائی خود مختياری ہرصوبے کا آٸینی و قانونی حق ہے۔ ان کے معاملات میں دخل اندازی سے بہتر ہے کہ وفاق اپنے معاملات سنبھالے  اسٹیل ملز، ریلوے اور پی آٸی اے کو بہتر سے بہتر طریقے سے چلانے کی کوشش کرے۔ سندھ قراقرم کی چوٹی ہے چلنا خود کو نہیں آتا لعنت اپنے گھٹنوں پر۔ آپ کی خارجہ پالیسی کا ثمر ہمیں خوب ملا اور کشمير آرٹيکل 370 کے تحت ہاتھ سے چلا گیا، چوہے بلی والا کھیل اب نہیں چلے گا۔

اب وفاق کو چاہیے کہ ايوب خان کے لیے ہوٸے سارے غیر آٸینی اقدامات اور معاہدوں کا ازالہ کرکے سندھ اور بلوچستان کےعلاقے ڈيره غازی خان، راجن پور جن کو پنجاب میں زم کیا گیا، ايوب خان نے ميرجاواں کا علاقہ جو کہ ایران کو تحفے میں دیا تھا وہ واپس کرواٸے اور بلوچستان کے حوالے کیا جاٸے۔ سندھ کا لسبيلہ والا علاقہ بلوچستان اور رحيم يار سے ملتان تک کا علاقہ پنجاب سے واپس لے کر سندھ کے حوالے کیا جاٸے تاکہ سب صوبوں سے احساس محرومی ختم ہوسکے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں