مقبوضہ کشمیر اور عوامی جدوجہد

0
1185

 

 تحریر: حیدر زیدی

‎‎

چہروں پر غیرت و حمیت اور جوش و جذبے کی داستانیں لیے اور آنکھوں میں آزادی کی چمک اور بے تابی سجائے آپ نے نوجوانوں کے گروہوں کو ضرور دیکھا ہوگا، جو ایک نعرہ اتنے زور اور جذبے کے ساتھ بلند کرتے کہ چاروں جانب وادی کے پہاڑ بھی گونج اٹھتے۔ یہ نعرہ تھا ‘پاکستان سے رشتہ کیا۔۔۔۔ لا الٰہ الا اللہّٰ’۔ کلمہ طیبہ کے اس رشتے کو نبھانے کی کہانی بہت خون آشام ہے۔

یہ کہانی وادی کشمیر میں پھیلے ہزاروں شہداء کے قبرستانوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ ان قبرستانوں میں آپ کو ہرعمر، ہر قوم، ہر نسب اور ہر قبیلے کا آدمی ملے گا۔ یہ لوگ تو اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے اور رب کے ہاں انعام کے مستحق بھی۔ لیکن وہ، وہ جو زخموں کے ساتھ زندہ ہیں، ان کے زخم بھی اتنے شدید اور المناک ہیں کہ لکھتے لکھتے بھی انسان خون کے آنسو رونے لگ جائے۔ راتوں کو بھارتی فورسز کے غنڈے گھروں میں گھستے، بچوں نوجوانوں بزرگوں کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاتے اور پھر چند دنوں بعد تشدد سے کچلی ہوئی لاش کسی سڑک کے کنارے یا کوڑے کے ڈھیر پر پڑی ملتی ہے۔ عورتوں پر ظلم و ستم اور تشدد کا کا انداز ویسا ہی بیہیمانہ ہے جیسا دنیا کی ظالم افواج کسی علاقے میں گھستے ہوئے روا رکھتی ہے۔ عصمتوں کو پامال کرتے ہوئے اس بات کا بھی دھیان نہیں رکھا جاتا کہ مظلوم عورت اسی سالہ بڑھیا ہے یا معصوم کلی۔ یہ سب کسی ناول کی کہانیاں یا فلموں کی روداد نہیں بلکہ حقیقتیں ہیں، سچائی سے لبریز داستانیں جو سالہا سال سے ہمارے اٹوٹ انگ میں پیش آرہی ہیں اور ہم ہمیشہ کی طرح سوائے نعروں، تقریروں اور مذمتی بیانات سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہم سوئے ہوئے ہیں، عالمی ضمیر بھی سویا ہوا ہے۔ جو کوئی غلطی سے جاگنے کی کوشش کرتا ہے اسے اتنا دبا دیا جاتا ہیکہ دوبارہ آنکھیں بند کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں رہتا۔

آخر کیوں؟ ہم مسلمان آج آدھی دنیا پر قابض ہیں، اٹھاون ممالک کے کرتا دھرتا اور دنیا میں خاص اہمیت کے حامل ہونے کے باوجود (ہم پر ہر طرف سے ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں۔ آج کشمیر کی مناسبت سے کشمیر کا ذکر کیا لیکن کیا آپ اور میں یہ نہیں جانتے کہ فلسطین، برما اور دوسرے کئی نام نہاد دوست ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے)۔ کشمیر! ہمارا اٹوٹ انگ، آج خون کے آنسو رو رہا ہے اور ہم خواب غفلت میں کھوئے ہوئے کسی عمر، کسی غزنوی یا کسی غزوہ کے بھروسے جی رہے ہیں۔ کب تک ؟ وہ عمر آدھی دنیا کو فتح کر گیا کیونکہ اس میں جذبہ تھا، ہمت تھی، اسلام تھا، یقین تھا، حوصلہ تھا وہ کسی کی آس پر نہیں بیٹھا رہا بلکہ نکلا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوا تبھی اللہّٰ نے کامیابیاں دی وہ غزنوی ہندوستان کو جیتتا تھا تو اس میں جیتنے کی لگن، اس میں کامیابی کا خون، اس میں اسلام کی محبت، اس میں اسلام کا جذبہ تھا۔ ہم ان کی تلاش میں ہیں لیکن ان جیسا بننا نہیں جانتے اور نہ ہی چاہتے ہیں۔ نہ وہ دم ہے نہ وہ خم چاہتے تو وہ بھی کسی معجزے کا انتظار کرنے بیٹھ جاتے لیکن نہیں، جس نے کرنا ہوتا ہے وہ کرتا ہے، جھکتا نہیں ڈرتا نہیں، کشمیر! ہماری شہہ رگ، کٹتی جا رہی اور ہم زندہ و جاوید ہیں ہمیں تو محسوس ہی نہیں ہو رہا کہ ہماری شہہ رگ کٹتی جا رہی ہے۔ میرے پیارے مسلمانان پاکستان و عالم اسلام خدارا ہوش کے ناخن لیں لاکھوں نہتے کشمیری گھروں میں محصور، نہ کھانے کو پہننے کو نہ بولنے کو پابندیوں سے جکڑی سلاخوں میں کیسے زندہ ہیں یہ کشمیری، زرا سوچ کر تو دیکھیے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں