کوہسارءِ شُوانگ

0
51

تحریر: ریاض بلوچ

یہ 6-2005 کا سال تھا، اخبارات میں بلوچستان کے بگڑتے حالات کی خبریں شایع ہو رہی تھیں، ہر شخص بلخصوص بلوچ عوام تشویش میں مبتلا تھی۔ نواب اکبر بگٹی سے حکومتی و حزب اختلاف کے رہنماؤں کی ملاقاتوں سے یہ امید کی جارہی تھی کہ حالات بہتری کی طرف جائینگے۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا اور حالات بد سے بدتر ہوتے گئے، آخرکار نواب صاحب نے پہاڑوں پر بسیرا کر لیا۔ میں اس وقت سندھی اخبارات میں مستقل کالم لکھتا تھا لیکن بلوچ قومی تحریک، بلوچستان کی سیاست و بلوچی ادب سے ناآشنا تھا۔ میرا دل چاہتا کہ اس مسئلے پر کالم لکھوں مگر اپنی لاعلمی کے باعث نہ لکھ سکا۔ البتہ مذکورہ عنوانات کا مطالعہ شروع کیا۔ اس وقت میرے پاس انٹرنیٹ کی سہولت میسر تھی نہ کتابیں دستیاب ہوئیں، میں بس دو چار اخباریں خرید کر ان کے کالم پڑھتا، اس لئے اخباری مضامین اور کچھ سینئر صحافی دوستوں سے گفتگو پر ہی اکتفا کیا۔ اسی دوران میں نے پہلی بار مبارک قاضی کا نام سُنا۔ ان کے کچھ اشعار سُنے جو بہت اچھے لگے اور مجھے اپنی مادری زبان کے ادب سے ناآشنائی پر ندامت ہوئی، میں تو سندھی ادب کا شائق تھا اور آج بھی ہوں۔ سندھی شاعری میں بھی ایک قاضی تھا قاضی قادن! لیکن ان کے سیاسی کردار کے بارے میں کوئی مثبت آراء موجود نہیں تھے، اب بلوچی شاعری کے قاضی کا کردار کیا تھا دل میں یہ معلوم کرنے کا اشتیاق پیدا ہوا لیکن چونکہ ہمارے علاقے میں آباد تمام بلوچوں کی حالت میری طرح تھی تو میں کس سے مدد حاصل کرتا۔

بہرحال انسان تلاش کرے تو کیا نہیں ملتا، آخرکار ایک دن مجھے مبارک قاضی کی کتاب “زرنوشت” مل گئی۔ پھر تو گذرتے وقت کے ساتھ ان کی دیگر کتب کے مطالعے کی سعادت بھی حاصل ہوئی لیکن میں آج تک اپنے آپ کو مبارک قاضی کی شاعری کا تجزیہ کرنے کا اہل نہیں سمجھتا۔

میں مبارک قاضی کی شاعری پر کیا لکھوں وہ اپنے عہد کے ایک بہت بڑے تخلیق کار کی حیثیت سے بلوچی ادب کی دنیا پر چاند ستاروں کی مانند جگمگا رہے ہیں جب کہ میں ادب کی دنیا کا ایک عام سا قاری ہوں۔ میں تو بس ان سے اپنی محبت کا اظہار کر سکتا ہوں۔ انسانی احساسات و جذبات کی ترجمانی، فطرت کی خوبصورتی و رنگینی، محبوب کے حسن و جمال، ناز و ادا، کی دلکش منظر کشی، عشق و محبت کی رعنائیاں، ہجر و وصال کے لمحات کو لطیف پیرائے میں بیان کرنا تو مبارک قاضی کی خوبیاں ہیں ہی۔ ان کی شاعری میں ایک نوجوان ہمہ وقت موجود ہے، جو کبھی کسی ماھرُو کی مھر میں مدھوش ہے، تو کبھی انتظار کی آسیب جیسی اذیت کا مقابلہ کر رہا ہے۔ وہ کبھی زلفوں کی گھنی چھاؤں میں ہفت تلار کی طرح شانت ہوتا ہے تو کبھی وصال کے ساحل سے ٹکرانے کی بیتابی میں سمندر کی مانند شور و غل برپا کرتا ہے۔

روک بنتءُ مر انت گیرءِ چراگ
تئی ھیالءِ تئی زھیرءِ چراگ
یا
تئی انتظارءِ گیابیں ودارانی جنگلءَ
اے چونیں دنزءُ لوڑے کہ مانشانگءَ نہ انت
یا
تہءَ من آپ بُواناں چو برہنگیں برفءَ
دلءَ بُن انت گنوکیءِ راز چے بکناں

ان کی شاعری کا پہاڑی نوجوان بڑے شہروں میں تو آتا ہے لیکن اپنی شہر کی رنگینیوں میں ڈوب کر اپنی ڈیھی زندگی کی محبت سے دستبردار نہیں ہوتا۔ شہر کی خوبصورت دوشیزہ سے مخاطب ہوکر کہتا ہے۔
منی تئی سلاہ چہ پیم بیت
تئو شہرءِ ٹہلیں جنک
من کوہسارءِ شوانگاں
منی ھیالءِ بژن چراگ روشنا بنت
من زندگاں پہ واہگءِ
بہارءِ سنجیں نوبتاں
بلے تچیت ھِرس تئی پہ رنگ رنگیں ماڑیاں
تئی دلءِ مراد بس
سہر و سبزیں گاڑیاں
منءَ را دوچ دوست بیت
تئو لوٹئے شہرءِ ساڑھیاں

لیکن یہ موضوعات تو ہر شاعر کا محبوب مشغلہ رہے ہیں۔ پھر کیا بات ہے کہ نوجوان مبارک قاضی کے اس قدر دیوانے ہیں کہ 16 ستمبر کو ان کے انتقال سے آج تک ایک دن بھی ایسا نہیں ہے کہ انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے سوا گزرا ہو، بلوچستان بھر سے لے کر ڈیرہ غازی خان و کراچی تک کسی نہ کسی علاقے میں ان کی یاد میں شمعیں روشن کی جا رہی ہیں، ان کی شاعری گائی جا رہی ہے! شاید مبارک قاضی کی انفرادیت کچھ اور ہے۔

ارے وہ تو گل زمین کا شاعر ہے، گل زمین کی ستاہ و ثناخوانی، اس کے ڈوک و ڈل، کؤر و کیلگ، زِر و تیاب، ہاک و ہوا پر فدا و جذبہ جانثاری نے ہی تو قاضی کو ایسا مبارک بنایا کو وہ تقدس کے ساتھ بلوچ نوجوانوں کے دل میں براجمان ہے۔

زِر چو آدینکءَ درپش دنت روچءِ دیگرءَ
گوات منی ڈیہہءِ باڑئی بھنگانی ملار
یا بہ بنت دارءُ ڈنگرءُ بوچءُ ڈوکءُ ڈل
گِل بہ بنت یا کہ بندنءِ زبریں ریکبار

جس طرح ان کے پیش رو شاعر مست تئوکلی کی شاعری کا محور سمو و شہ مرید کے کلام کا مرکز ہانی تھی، اسی طرح مبارک قاضی کے کائنات کا نظام شمسی اس کا وطن بلوچستان تھا، وہ اپنے وطن کو گلزمین کے نام سے پکارتے تھے۔ گل خان نصیر نے اپنی شاعری میں شہ مرید سے گفتگو کرتے ہوئے ہانل و وطن سے محبت کا موازنہ کیا تھا لیکن مبارک قاضی نے “ہانی منی ماتیں وطن” کے نام سے پوری کتاب لکھ دی۔

ظاہر ہے وطن ایک وسیع لفظ ہے اور اس کو جغرافیائی حدود تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ وطن کا ذکر بزگر یا کسان، شوانگ یا چرواہے، مید یا ماہیگیر کے سوا نامکمل ہے پھر مبارک تو کاملیں قاضی تھا وہ بھلا ادھوری بات کیسے کرتا۔
وہ جہاں چراوہے، ماہیگیر و بزگر کی بزگی کی بات کرتا ہے وہاں وطن کی خوشحالی و آسودگی کی امید بھی انہی سے وابستہ کرتا ہے، یہی ان کی انفرادیت ہے کیونکہ وہ خود بھی خود بھی زر مانگو تو بے زر ہوں سر مانگو تو حاضر ہوں والے طبقے سے تھا۔

اے شاعراں پروانگیں، اے عاشقاں دیوانگیں
قاضی دگے ہچ عیب نیست بس بے سرءُ سامانی انت۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں