عوام آپ کے لیے کیوں نکلیں

0
55

تحریر: ناصر منصور

آپ عوام کو پکار رہے ہیں کہ آپ کی ڈولتی، ڈوبتی کشتی کو بھنور سے نکالنے کے لیے 27 مارچ کو آسلام آباد پہنچیں. آپ اپنے مربی کی بے اعتنائی سے خوف زدہ ہو کر عوام اور عدالت کی ڈھال کے طلب گار ہیں۔

عدالت آپ کے جرائم پر پردہ ڈالتی ہے یا کہ نہیں یہ تو جلد پتہ چل جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ عام لوگ آپ کو بچانے کے لیے کیوں کر گھروں سے نکلیں۔ آپ نے کوئی تو ایسا کام کیا ہو کہ جس سے عام ادمی کے لیے کوئی راحت کی سبیل نکلتی ہو۔

آپ جس مغرب اور امریکہ سے خیالی نبرد آزمائی فرما رہے ہیں انہی کے سرمایہ سے قائم مالیاتی ادارے کے ہاتھوں بائیس کروڑ انسانوں کو چھ ارب ڈالرز کے عوض گروی رکھ چکے ہیں اور اب گردن پر ہاتھ آیا ہے تو مغرب مخالف جذباتی نعرے لگا رہے ہیں۔ یہ آپ ہی ہیں نا جس نے ڈالر کو 182 روپے پر لے جا کھڑا کیا ہے اور روپے کے پاؤں مسلسل لڑکھڑا رہے ہیں۔ آپ کے دور میں آٹا 75 سے 85 روپے کلو، خوردنی تیل چار سو روپے فی لیٹر تک جا پہنچا ہے۔ پیٹرول جلد 170 فی لیٹر کی حد کو چھو لے گا۔ بجلی اور گیس میں سو فی صد اضافہ نے دن کو چین اور رات کا سکون غارت کر دیا ہے تو ادویات میں ساڑھے چار سو فی صد تک اضافے نے زندہ رہنے کی اُمید ہی چھین لی ہے۔ آپ نے اپنا گھر تو ریگولرائز کرا لیا لیکن لاکھوں انسانوں کو بے گھر کر دیا۔ اجرتیں اور تن خواہیں حقیقی معنوں میں آدھی رہ گئی ہیں۔

آپ وہ ہیں جس نے سیاست میں رہی سہی جمہوری اقدار کی بھی دھجیاں اڑا دی ہیں، شائستگی شاید آپ اور آپ کے رفقاء کی لغت میں ہے ہی نہیں، آپ دروغ گوئی کی زندہ مثال بن گئے۔ آپ نے کوئی ایسا سماجی محاذ نہیں چھوڑا جسے ترقی معکوس کی علامت نہ بنا دیا ہو۔ آپ نے جمہوریت کی روح یعنی رائے کی آزادی کو بُری طرح مجروح کر دیا ہے۔ منتخب اداروں کی بے توقیری کو دوام بجشا ہے۔ آپ کے دور کے لیے کوئی علامت ذہن میں اگر آتی ہے تو وہ جھوٹ اور ریاکاری ہی ہو سکتی ہے۔ منافقت کی انتہا یہی تو ہے کہ آپ مذہب کو ڈھال کے طور استعمال کر رہے ہیں اور مصائب کی آلائشوں میں لتھڑے معاشرے پر ریاستِ مدینہ کے تقدس کا غلاف چڑھا رہے ہیں۔

عام لوگوں کو آپ کے اقتدار میں رہنے سے کوئی سروکار نہیں کیوں کہ ان کے بہت بڑے حصہ کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیلنے میں آپ نے اپنا پورا پورا حصہ ڈالا ہے۔ آپ محنت کش عوام پر ناکردہ گناہوں کی سزا کی صورت مسلط ہوئے ہیں۔ آپ کے مربی اور پشتی بان اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کو تیار نہیں اور بدقسمتی سے کوئی ایسی حقیقی عوامی قوت بھی موجود نہیں جو اس عذاب کے موجد سے حساب لے سکے۔

لگتا تو یہی ہے آپ کو بچانے کے لیے عوام کسی صورت نہیں نکلیں گے اور نہ ہی نکلنا چاہیے، یہ ایسا ہی ہو گا کہ آپ اپنے قاتل کو مسیحا قرار دے کر اسے بچانے نکلیں۔ اپوزیشن بھی کوئی خوشی کی نوید نہیں لا رہی، وہ بھی اسی منہ زور قوت کی شہ پر کامیابی چاہتی ہے جو اس ملک اور عوام کی بربادی کے ذمہ داروں میں سے ایک یے۔

جو آپ کو بچانے آئیں گے یا پھر آپ کو نکالنے والوں کے مارچ میں شریک ہوں گے، وہ سب گھیر کر لائے جا رہے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو کسی کو بچانے اور دوسرے وہ ہیں جو کسی کو نکالنے کے لائے جا رہے ہیں۔ جس روز عوام کا جمِ غفیر خود اپنے طور منظم ہو کر اپنے مسائل کے لیے سڑک پر آ گیا تو اس ملک میں حقیقی تبدیلی کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔

اس وقت تو سیاسی، سماجی اور معاشی حبس اس قدر ہے کہ لوگ لُو کی دعا مانگ رہے ہیں اور اپوزیشن کا طرز عمل بہار کی نوید نہیں لُو کا امکان لیے ہوئے ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں