لوگ لاکر ووٹ ڈالنے والوں کو روکنے کی اجازت نہیں دینگے، چیف جسٹس

0
125


اسلام آباد: ‏سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر لارجر بنچ تشکیل دینے کا فیصلہ کرلیا۔
عدالت نے تمام سیاسی جماعتوں کو صدارتی ریفرنس میں نوٹس جاری کر دیئے۔ لارجر بنچ کیس کی سماعت 24 مارچ کو کریگا۔

‏سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم کو سندھ ہاؤس حملے پر عدالتی تشویش سے آگاہ کیا اور وزیراعظم نے کہا پر تشدد مظاہرے کسی صورت برداشت نہیں ہیں۔ سندھ ہاؤس حملے کا کسی صورت دفاع نہیں کر سکتا۔ انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس نے عدالت میں بتایا کہ سندھ ہاؤس حملے پر شرمندہ ہیں۔

‏پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں بتایا کہ تحریک انصاف کے وکیل کہتے ہیں کہ یہ جمہوری عمل پر یقین رکھتے ہیں۔ عملی طور پر تحریک انصاف نے جمہوری عمل کئی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ‏سپریم کورٹ بار کی درخواست ابھی نمٹا نہیں رہے اور تحریری دلائل سے وقت کی بچت ہوگی۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ ‏اگر کوئی رکن اسمبلی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ کاسٹ کرنے جا تھا ہے تو ایسی صورت میں کیا ہوگا جس پر اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں جواب میں کہا کہ کوئی کسی رکن اسمبلی کو ووٹ کاسٹ کرنے سے نہیں روک سکتا۔ ‏آئین کی کوئی شق کسی منحرف رکن اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکتی۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ حلف دے کر کہتا ہوں عدم اعتماد والے دن پارلیمنٹ کے باہر ہجوم نہیں ہوگا کسی کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جائے گا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ‏ریفرنس کیوجہ سے پارلیمنٹ کی کاروائی تاخیر کا شکار نہیں ہوگی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ‏ووٹ ڈالنا اراکین کا آئینی حق ہے اور ‏اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالت کو بتایا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والے منحرف اراکین اسمبلی کو نہیں روکا جا سکتا۔

صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ا‏سپیکر کو سب کا نمائندہ ہونا چاہیے تھا لیکن انہوں نے اپنی جماعت کی حمایت میں مقررہ وقت 7 روز میں تحریک عدم اعتماد پر کارروائی نہ کی وہ آرٹیکل 95 اور 45 کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ان کے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی ہونی چاہیے اسی لیے عدالت آئے ہیں۔ جس پر۔چیف جسٹس نے کہا کہ ‏لوگ لاکر ووٹ ڈالنے والوں کو روکنے کی اجازت نہیں دینگے۔

قانونی ماہرین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ‏اگر اراکین کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں اور سیاسی جماعت کا اجتماعی حق ہوتا ہے تو سینیٹ میں انفرادی ووٹ سے ہی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل ہونے کی ایک ہی مدت میں دو روایات موجود ہیں پھر وہ بھی خلاف آئین اقدام تھے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں