فیروز والا فائلز، عمران خان اثاثوں کی بار بار غلط بیانی کرنے کے باوجود صادق و امین قرار

0
337

کراچی(فیکٹ فوکس) فیکٹ فوکس کی اس رپورٹ میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صادق اور امین وزیر اعظم عمران خان کی صداقت اور امانت کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔

‏شیخوپورہ کے علاقے فیروزوالہ میں سابق آئی جی پنجاب شاہ نذیر عالم کی بیوہ اور جنرل ریٹائرڈ شاہ عارف عالم کی سوتیلی والدہ مسمات نگہت ارم 500 کنال 9 مرلے اراضی کی مالک تھیں۔ انہوں نے اس اراضی کا مختارنامہ 1996 میں عمران خان کے والد اکرام اللہ نیازی کو دیا۔ ‏مختار نامے کی بنیاد پر اکرام اللہ نیازی نے یہ اراضی 13 اکتوبر 2004 کو اپنے بیٹے عمران خان اور چار بیٹیوں کو 70 لاکھ روپے میں فروخت کر دی تھی۔

‏عمران خان نے یہ جائیداد 2005′ 2006 اور 2007 میں الیکشن کمیشن کو جمع کرائی گئی اثاثوں کی تفصیل میں ظاہر نہیں کیا، جبکہ 2005 سے 2009 تک اپنی انکم ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر نہیں کیا۔ ‏19 مارچ 2008 کو اکرام اللہ نیازی کا انتقال ہوا۔ جس کے بعد علیمہ خان نے یہ جائیداد اپنی ویلتھ سٹیٹمنٹ میں ظاہر کی لیکن غلط بیانی کرتے ہوئے اسے ‘وراثتی’ ظاہر کرکے اس کی مالیت صفر لکھی حالانکہ جائیداد اپنے والد سے ‘خریدی’ تھی۔

‏عمران خان نے یہ جائیداد 2010 میں ظاہر کی لیکن غلط بیانی کرتے ہوئے اسے ‘وراثتی’ اور مالیت ‘صفر’ ظاہر کی۔ ‏2004 میں خریدی گئی اس جائیداد کے متعلق 15 سال مسلسل جھوٹ بولنے کے بعد 2019 میں متین احمد بُھلہ کو 35 کروڑ روپے میں فروخت کر دیا گیا۔ خریدار کا ٹیکس بچانے کیلیے اس جائیداد کو ایک ہی شخص کو دو ماہ میں 80 رجسٹریوں کے ذریعے بیچا گیا اور ہر رجسٹری
کی مالیت 40 لاکھ سے کم رکھی گئی۔

‏عمران خان کو 2005 میں پشاور میں ایک پلاٹ ‘گفٹ’ ملا، جس کو لیکن دس سال چھپانے کے بعد پہلی دفعہ 2015 میں ظاہر کیا۔ 2005 میں عمران خان اسمبلی کا رکن تھا لیکن الیکشن کمیشن کو جمع کروائی گئی تفصیل میں اس پلاٹ کو ظاہر نہیں کیا گیا۔

‏28 دسمبر 2015 کو پشاور میں ایک تقریب کے دوران عمران خان نے اس پلاٹ کی ملکیت کو تسلیم کیا اور بتایا کہ یہ پلاٹ شوکت خانم ہسپتال کو دیدیا گیا ہے۔

‏1987 میں بھارت کو ٹیسٹ سیریز میں شکست دینے والی پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو لاہور میں رہائشی پلاٹ دینے کا اعلان کیا گیا جس کی ایک شرط یہ تھی کہ پہلے سے پنجاب میں کوئی گھر یا پلاٹ نہ ہو۔

‏عمران خان نے بھی 2 اپریل 1987 کو پلاٹ کیلیے درخواست دی جس کیساتھ بیان حلفی لگایا کہ اس کا کوئی گھر یا پلاٹ نہیں جبکہ اس وقت وہ اپنے فیملی ہاؤس میں رہتے تھے اور ویسٹ وڈ سوسائٹی لاہور میں کئی پلاٹوں کے مالک تھے۔ یہ سوسائٹی اکرام اللہ نیازی نے اسی کی دہائی میں بنائی تھی۔

‏عمران خان نے 10 مئی 1983 کو جرسی آئی لینڈ میں ‘نیازی سروسز لمیٹڈ’ کے نام سے آفشور کمپنی بنائی۔ اس کمپنی کے متعدد بنک اکاؤنٹس کھولے گئے۔ اسی کمپنی کے نام پر لندن میں 117000 پاؤنڈ کا اپارٹمنٹ خریدا گیا۔ 2015 تک کمپنی اور اکاؤنٹس نہ الیکشن کمیشن اور نہ ہی ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر کیے۔ ‏2000 میں یہ اپارٹمنٹ اس وقت ظاہر کیا گیا جب جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے کالا دھن سفید کروانے کیلیے ٹیکس ایمنیسٹی اسکیم متعارف کروائی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ 2002 کے الیکشن میں عمران خان وزیراعظم بننے کا امیدوار تھا۔

سابق چیف جسٹس ‏ثاقب نثار کے فیصلے کے مطابق آفشور کمپنی صرف اپارٹمنٹ کیلیے بنائی گئی تھی اس لیے اس کا علیحدہ سے ظاہر کرنا ضروری نہیں تھا حالانکہ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے جمع کرائی گئی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس آفشور کمپنی کے ذریعے دیگر کام بھی کیے جا رہے تھے۔

وزیر اعظم ‏عمران خان کی طرف سے جمع کروائی گئی بنک اسٹیٹمنٹس سے پتہ چلتا ہے کہ کم و بیش ایک لاکھ پاؤنڈز کی ٹرانزیکشنز اپارٹمنٹ سے متعلقہ نہیں تھیں اور یہ اسٹیٹمنٹس بھی صرف پانچ سال کی تھیں۔ 15 سال کی بنک اسٹیٹمنٹس عدالت کو فراہم ہی نہیں کی گئیں۔

‏نومبر 2020 میں یہ خبریں سامنے آئیں کہ وزیراعظم عمران خان نے غیر ملکی سربراہوں سے ملنے والے تحائف میں کوئی تحفہ توشہ خانے سے لیا اور پھر فروخت کر دیا۔ ایک شہری ابرار خالد نے کابینہ ڈویژن کو درخواست دی کہ وزیراعظم کی طرف سے رکھے جانیوالے تحائف اور ان کی مالیت سے آگاہ کیا جائے۔

‏کابینہ ڈویژن نے یہ تفصیل دینے سے انکار کر دیا جس پر شہری نے پاکستان انفارمیشن کمشن کو درخواست دیدی۔ کمشن نے 21 جنوری 2021 کو کابینہ ڈویژن کو تفصیل فراہم کرنے اور ویب سائٹ پر بھی شائع کرنے کا حکم دیا۔ جس کو کابینہ ڈویژن نے 10 ستمبر 2021 کو ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا۔ ‏فیصلہ چیلنج کرنے کے دس دن بعد 10 ستمبر 2021 کو عمران خان نے توشہ خانہ سے لیا جانیوالا گفٹ اپنی ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر کر دیا جس کی مالیت 11.68 ملین روپے ظاہر کی۔

وزیر اعظم ‏عمران خان نے اپنی ٹیکس ریٹرنز ہمیشہ لیٹ داخل کیں لیکن 2021 کی ٹیکس ریٹرنز ستمبر میں ہی جمع کروا دیں جس میں توشہ خانہ سے لیا جانے والا ‘تحفہ’ ظاہر کر دیا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں