‏کشمیر کن شرائط پر بکا اور اس کا کشمیریوں پر کیا اثرات پڑے

0
336

تحریر فاطمہ بلوچ

سولہ مارچ 1846ء انگریز نے 75 لاکھ کے عوض کشمیر گلاب سنگھ ڈوگرہ کو فروخت کیا۔ امرتسر معاہدہ پھر اس کا بیٹا زنبیر سنگھ جانشین بنا، پھر پرتاب سنگھ جانشین بنا، پھر امر سنگھ کا بیٹا ہری سنگھ سازش سے جانشین بنا، حکیم نور دین جو مرزا قادیانی کا دست راست اور سرکاری حکیم تھا اس سازش میں پیش پیش تھا۔ یہ قادیانی سازش کی پہلی فتح تھی۔ قادیانی کشمیر میں الگ ریاست کے خواہاں تھے۔

ہری سنگھ 1925ء میں گدی نشین بنا جسے قادیانی حمائت حاصل تھی۔ مسلمانوں پر ظلم و استبداد شروع ہوا 25 جولائی 1931ء میں فئیر ویو منزل شملہ میں ایک میٹنگ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ جس کی صدارت قادیانی مرزا بشیرالدین محمود نے کر ڈالی۔ یہ مرزا قادیانی کا بیٹا تھا، یہ پھر قادیانی فتح تھی۔ اس نے سازش کر دی کہ تمام مسلمان قادیانی کے نبی ہونے کو مان چکے ہیں اسی لیے مرزا بشیر کو صدر منتخب کیا۔ یاد رہے اس کمیٹی میں علامہ اقبال بھی شامل تھے۔ سب مسلمان فورا اس کمیٹی سے دستبردار ہوئے۔ عطاءاللہ شاہ بخاری فورا کشمیر بھیجے گئے۔ بڑی مشکل سے مسلمانوں کو اس سازش سے نکالا۔ علامہ اقبال مجلس احرار کے سرپرست بنے اور بشیر قادیانی کی سازش ناکام کی۔

یہ سب سمجھنے کے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ کشمیر کی تاریخ حملہ آوروں سے بھری ہوئی ہے۔ انڈیا کی طرف جانے والے حملہ آور بھی کشمیر کے راستے ہی ہندوستان پہنچتے تھے، جن میں تین سو چھبیس قبل مسیح میں میسیڈونیا سے آنے والے سکندر اور سائیتھئینز جیسے کچھ وسطی ایشیائی قبیلے بھی شامل تھے۔

کشمیریوں نے کئی صدیاں پانڈو، موریا، کوشان، گوناندیا، کرکوٹا، اتپالا اور لوہارا جیسے بیرونی حکمرانوں کے تحت گزاریں۔ کشمیر کی تاریخ کو عام طور پر چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے: ہندو راجاؤں کا قدیم دور، جس کی تفصیل کلہن پنڈت کی لکھی ہوئی قدیم کتاب ‘راجترنگنی’ میں ملتی ہے، کشمیری مسلمانوں کا دور، جنھیں سلاطین کشمیر کہا جاتا ہے، مغل دور جسے شاہان مغلیہ کہا جاتا ہے اور پٹھانوں کا دور جسے شاہان درانی کہا جاتا ہے۔

مغلیہ سلطنت نے 1586 سے 1751 تک کشمیر پر حکومت کی۔ 1752-54 کے دوران افغانستان کے احمد شاہ ابدالی نے مغلوں سے کشمیر کو حاصل کرکے کشمیر پر جابرانہ تسلط قائم کیا۔ کشمیر میں افغان درانی دور 1819 تک چلا جب پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی قیادت میں سکھوں نے شوپیاں کی جنگ میں افغان گورنر جبار خان کو شکست دی۔

سنہ 1822 میں رنجیت سنگھ نے گلاب سنگھ کو، جن کا تعلق ہندو ڈوگرا برادری سے تھا، ان کی خدمات کے عوض جموں کا راجہ بنا دیا۔ گلاب سنگھ نے اس میں راجوری، پونچھ، بدرواہ اور کشتوار کا اضافہ کیا۔ سنہ 1845 میں برطانیہ نے یہ کہہ کر سکھوں کے ساتھ جنگ چھیڑ دی کہ مہاراجہ وقت نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ساتھ 1809 میں طے پانے والے معاہدہ امرتسر کی خلاف ورزی کی ہے، جس کے ذریعے سکھ سلطنت کی مشرقی سرحدیں طے ہوئی تھیں۔ سکھ مہاراجہ جنگ ہار گئے اور نو مارچ 1846 کے معاہدہ لاہور کے تحت طے ہونے والا جرمانہ ادا نہیں کر سکے، جس کے بعد انھیں کشمیر سمیت دیگر زمینیں بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام کرنا پڑیں۔ آج کل کشمیر کافی بڑے علاقے کو سمجھا جاتا ہے جس میں وادی کشمیر، جموں اور لداخ بھی شامل ہے۔ پاکستانی کشمیر گلگت اور بلتستان کے علاقے شامل ہیں۔ 1846ء سے پہلے یہ آزاد ریاستیں تھیں۔ پاکستان بنتے وقت یہ علاقے کشمیر میں شامل تھے۔ وادی کشمیر پہاڑوں کے دامن میں کئی دریاؤں سے زرخیز ہونے والی سرزمین ہے۔ یہ اپنے قدرتی حسن کے باعث زمین پر جنت تصور کی جاتی ہے اس وقت بھارت خطہ کشمیر کے سب سے زیادہ حصے یعنی 101،387 مربع کلومیٹر پر جبکہ پاکستان 85،846 اور چین 37،555 مربع کلومیٹر پر قابض ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں