امریکا میں پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی مخصوص مہم درست نہیں، ڈاکٹر غلام مجتبیٰ

0
85


اسلام آباد: پاکستان پالیسی انسٹیوٹ امریکہ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر غلام مجتبیٰ نے کہا ہے  امریکہ میں پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کے ایک مخصوص گروپ کی طرف سے پاکستان کی موجودہ حکومت کے خلاف ایک خاص مہم شروع کر رکھی ہے، جس کا مقصد حکومت کو نیچا دکھانا جبکہ عمران خان کو جمہوریت کے واحد چیمپئن اور جنوبی ایشیائی خطے میں امریکہ کے سب سے قیمتی اتحادی کے طور پر پیش کرنا ہے۔ عمران خان کے حامیوں اور لابی گروپس کو ان کی امریکہ مخالف بیان بازی کا مقدمہ بھی اراکین کانگریس کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔قول و فعل کا تضاد نہیں ہونا چاہیے۔

امریکا سے بذریعہ ٹیلی فون صحافیوں کے ایک گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ  پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر کمیونٹی اگر لابی کرنا بھی چاہتی ہے تو حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش نہ کریں۔ حکومت کی مخالفت میں ریاست پاکستان کا نقصان نہ کریں۔

انھوں نے نے کہا کہ ایسی کئی رپورٹس دستیاب ہیں جہاں خان نے جنگی علاقوں میں طالبان کے دفتر کھولنے کی حمایت کی۔ طالبان کو کھلی چھوٹ دی گئی جس کی وجہ سے پاکستان میں حالیہ دہشتگردی نے جنم لیا۔ مزید برآں، خان کے قومی سلامتی کے مشیر نے مبینہ طور پر امریکہ کو افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کی صورت میں 9/11 کے مقابلے میں ممکنہ دہشت گردانہ حملے کا خدشہ ظاہر کیا۔

ڈاکٹر غلام مجتبیٰ کا مزید کہنا تھا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ آٹھ نو سال خیبر پختونخواہ پر حکومت کرنے کے بعد بھی دہشتگردی وہاں موجود ہے جو پاکستان کے لیے مہلک ثابت ہورہی ہے۔ مزید برآں، طالبان کی جانب سے بلیک منی کے استعمال، اور طالبان کے ہمدردوں کی جانب سے اسی قسم کی فنڈنگ کے الزامات موجود ہیں، جس سے ایسے عناصر کی جانب سے 501 کور استعمال کرنے والے فنڈز پر ڈی اے ای کی ایک فعال تحقیقات کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ایک طرف امریکہ میں مقیم لابی خان کو امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی کے طور پر پیش کر رہے ہیں لیکن وہ یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے خان کی حکومت کو ختم کرنے کی امریکی سائفر کی کہانی گھڑی۔ پاکستان میں امریکہ مخالف احتجاج کو سڑکوں اور جلسوں میں ہوا دی تھی۔ جہاں آپ خان کو اتحادی بتاتے ہیں وہاں یہ بھی امریکا کو بتائیں کہ یہ خان ہی تھا جس نے دھرنا کے ذریعے افغانستان کے لیے نیٹو سپلائی لائن کو بھی بلاک کر دیا تھا۔ اپنے سیاسی مفادات کی بنا پر یہ تو کبھی  ایغور اور میانمار میں مسلمانوں کے لیے آواز نہ اٹھا سکا۔ یہ منافقت نہیں ہونی چاہیے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں