ملکی معیشت و مہنگائی

0
39

تحریر: رابعہ خان

تاریخی بلندیوں پر پہنچ چکی ہے پاکستان میں مہنگائی کی شرح، لیکن ہماری حکومت و نگراں حکومت، اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہے جبکہ حکومت کو اس بات کا بخوبی علم ہوتا ہے کہ ملک ڈیفالٹ کی جانب جا رہا ہے پھر بھی ہماری حکومت اپنی سیاست چمکانے کے غرض سے کبھی عوام کو ریلیف کا جھانسہ دے رہی ہوتی ہے تو کبھی انکم سپورٹ پروگرام بینظیر انکم سپورٹ پروگرامز سے عوام کا دل بہلا رہی ہوتی ہے اور عوام کو بجائے محنت کش بنایا جائے، بھکھاری بنایا جانے لگا ہے یا پھر سابقہ حکومت کے چرچے جاری ہوتے ہیں کہ سابق حکومت ملک دیوالیہ کرگئی، ملک کا خزانہ خالی ہوگیا اور یہی گن گاتے گاتے اپنا وقت مکمل کر کے چلی جاتی ہے مگر عوام جن کی ووٹنگ سے یہ اقتدار میں آتے ہیں کوئی اس جانب نظر نہیں کرتا، کوئی نہیں سوچتا عوام کے بارے میں، حتیٰ کہ عوام خود بھی نہیں سوچ رہی کوئی فرق نہیں پڑ رہا عوام کو بھی۔ گر پڑتا تو اپنے حقوق کی خاطر اپنی آواز بلند ضرور کرتی انہیں چند کلو سستے آٹے کی خاطر لمبی قطاروں میں لگنا منظور ہے، انہیں چند روپیوں کی خاطر اپنی عزت نفس مجروح کرنا منظور ہے مگر اپنے بنیادی حقوق کی خاطر باہر نکلنا نا منظور ہے آخر کیوں؟

ایسے حالات عام آدمی نے اپنے لئے خود ہی پیدا کئے ہیں آخر کب تک دوسروں کے آسروں پر، کب تک اور کس کے انتظار میں رہے گی عوام کے ہاں کوئی آئے گا مدد کو، کوئی نہیں آئے گا آپ کو اپنی مدد آپ کرنی پڑے گی۔ اس وقت مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے یہی نہیں بلکہ مڈل کلاس طبقات بھی سفید پوشی کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔  ملکی روپے کی بے قدری، ڈالر کی اونچی اڑان ٹیکسز میں بے جا اضافے، بجلی، گیس، آٹا و دیگر اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافا ہو رہا ہے مگر عوام پھر بھی خاموش۔ کیوں؟ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ کے انسان روز کی آمد و رفت سے قاصر ہے، لوگ میلوں پیدل چلنے پر مجبور ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا کیسی بھی حکمران کو اقتدار میں ووٹ دے کر منتخب کرنا ہی عوام کا حق ہے وہ کیوں خاموش ہو جاتی ہے کیونکہ اپنے حقوق نہیں مانگتے۔ جب  شیخ رشید سے ان کے ایک بیان میں صحافی کی جانب سے ایک سوال پوچھا گیا تھا کہ عوام کو ان کے حقوق کیوں نہیں ملتے کیوں اقتدار میں آنے والے خاص طور پر سیاسی رہنماؤں کو ان کے حقوق مل جاتے ہیں اس سوال کے رد عمل میں شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ہم اپنے حق کی خاطر احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں اپنا حق مانگتے ہیں مگر اس کے برعکس عوام خاموشی اختیار کرتی ہے اگر یہ بھی اپنے حقوق کے لئے اٹھیں تو اپنا حق باآسانی حاصل کر سکتے ہیں۔

جب مہنگائی حد  سے گزر جاتی ہے تو ملک کے مختلف کاروباری تاجر و صنعتکار و کمپنیوں کے مالکان بھی مہنگائی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں اٹھتے ہیں اپنے حق کی خاطر اور ڈٹے رہتے ہیں جب تک مطالبات پورے نہ کیئے جائیں تو عوام کیوں نہیں نکلتے کیا یہ ملک کا حصہ نہیں؟ ووٹ کے لئے تو ہر گھر کا ہر فرد نکلتا ہے کیوں؟ کیونکہ ہمارا حق محض اتنا ہی ہے کہ ملک میں لیڈر منتخب کیا جائے۔ مانا کہ ملک اس وقت شدید ڈیفالٹ کا سامنا کر رہا ہے، شدید افراتفری کا شکار ہے اور اس میں سیاسی و معاشی انفرادیت دونوں شامل ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ حالات کی بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ ان حالات کا ذمہ ار ہم کسی ایک حکومت کو نہیں ٹھہرا سکتے کسی ایک حکومت کو اقتصادی بحران کا ذمہ دار نہیں مان سکتے۔ کسی ایک سیاسی رہنما کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا سکتے بلکہ عوام بھی اس میں برابر ہی کی شراکت دار ہے، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریٹس سمیت سب کا برابر کا ہاتھ ہے۔ فرق اتنا ہے کہ انہیں حق مانگنا آتا ہے، لینا آتا ہے چھیننا آتا ہے اور عوام کو خاموشی اختیار کرنا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں