دہشتگردی کا ذمہ دار کو ن ہے؟

0
48

تحریر: شہریار شوکت

[email protected]

عمران مائنس ہوا تو جمہوریت بھی مائنس ہوگی، ہم کسی کو این آر او نہیں دیں گے، مریم نواز این آر او کے لئے بیک ڈور رابطے کررہی ہیں، نااہل سلیکٹڈ کو گھر جانا ہوگا، عروج پاگئے کمینے لوگ، تم اتنے بے شرم ہو، جب بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے، میرا قائد، تیرا قائد۔ ہائے رے پاکستانیوں تمہاری قسمت۔ یہ وہ باتیں ہیں جو گزشتہ کئی  سالوں سے اسمبلی میں زیر بحث ہیں اور ابھی تک انہیں باتوں پر بحث جاری ہے۔ دنیا بھر کے ممالک تو اپنی معیشتوں کو سنبھالنے کیلئے لاک ڈاون سے نکل آئے ہیں لیکن ہمارے ہاں سخت، نرم، اسمارٹ، ہینڈسم مکمل اور ادھورے لاک ڈاؤن کی بحث تاحال جاری ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومت دونوں ہی لاک ڈاؤن میں عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہی ہیں۔ صبح شام پریس کانفرنس کرنے والے بلکہ یوں کہہ دیں کم مدت میں پریس کانفرنسوں کی سنچریاں بنانے والے صوبائی و وفاقی وزیروں نے اپنی نااہلیوں سے بے روزگاروں کی فوج تیار کرلی ہے۔

حکمراں اسمبلیوں میں شور شرابے میں مصروف ہیں اور ملک کو معاشی بحران کے ساتھ ساتھ اب دہشت گردی کی بھی ایک نئی لہر کا سامنا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں واقع بازارِ حصص، پاکستان سٹاک ایکسچینج کی عمارت پر پیر کو شدت پسندوں  نے حملہ کیا، پاکستان اسٹاک ایکسینج کے گارڈ، پولیس اہلکاروں اور رینجرز کی بروقت کارروائی سے اس حملے کو ناکام بنا دیا گیا اس  حملے میں چاروں حملہ آوروں کو ہلاک کردیا گیا۔ ظاہری طور پر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ شر پسند عناصر بازارِ حصص میں موجود کاروباری لوگوں کو یرغمال بنا کر اپنے مطالبات منوانا چاہتے تھے۔ یہ واقعہ صبح دس بجے کے قریب پیش آیا اور ابتدائی معلومات کے مطابق حملہ آور پارکنگ کے راستے عمارت کے احاطے میں داخل ہوئے اور انھوں نے دستی بم پھینک کر رسائی حاصل کی۔ کالعدم شدت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی سے منسلک ٹویٹر اکاؤنٹ کے ذریعے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ مجید بریگیڈ کے ارکان نے اس کارروائی میں حصہ لیا، اس سے قبل سندھ میں ہی رینجرز پرایک حملہ کیا گیا تھا جس کے ذمہ داری بھی ایک شدت پسند تنظیم نے قبول کی۔

چونکے ہمارے ہاں اسمبلی میں تو کوئی فیصلہ ہو نہیں سکتا لہذا تمام فیصلے سوشل میڈیا پر ہی ہوتے ہیں۔ ہم نے شہید اہلکاروں کی محبت میں ان کی ایک دو تصاویر کچھ محبت بھرے لفظوں کے ساتھ فیس بک اور ٹویٹر پر لگا دی۔ ساتھ  ہی دہشت گردی اور ملک دشمنی کی حوصلہ شکنی میں ایک دو لفظ لکھ دیئے میرا ایسا کرنا تھا کہ دو گروہ میرے سوشل میڈیا پر ٹوٹ پڑے ایک گروہ نے تو دھڑا دھڑ پوسٹ شئیر کرنی شروع کردی جبکہ دوسرے گروہ نے ہمیں خاصے اچھے اچھے ناموں سے نوازا جن میں سے اکثر اخبار میں چھپنے کے قابل نہیں۔ ایک  نامور صحافی دوست نے ان دہشت گردوں  کی تصاویر کے حوالے سے ایک سوال کیا کہ ان کے دہشت گرد بننے، قلم چھوڑ کر ہتھیاراٹھانے کا ذمہ دار کون ہے؟ کون ہے جس نے ایسے حالات پیدا کردئے جس کے بعد یہ لوگ ایسے اقدامات پر مجبور ہوگئے؟

اس دوست کے سوال کے بعد میں بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ آخر کون لوگ ہیں جو دہشت گرد بناتے ہیں؟ اسمبلیوں میں ہم بار بار ایک ہی شور سنتے ہیں کہ بلوچستان کو وسائل نہیں دیئے جاتے۔ بلوچستان کے ساتھ ظلم ہوتا ہے۔ زرا اس سال کے بجٹ پر ایک نظر ڈالیں۔ اس بجٹ میں بلوچستان کیلئے تعلیم کی مد میں 71 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جو کہ رواں سال کے مقابلے میں نو ارب روپے زیادہ ہیں۔ میری جان سے پیارے بلوچ بھائی زرا ٹھنڈے زہن سے غور کریں کیا ان کے صوبے میں تعلیم پر سالانہ اتنا خرچ ہورہا ہے؟ اگر نہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ فوج، کراچی میں بسنے والے لوگ؟ یا پنجاب کا کوئی کسان؟ بلوچستان میں کورونا کے باعث صحت کے بجٹ میں اضافہ کرتے ہوئے اس شعبے کے غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے 31 ارب روپے رکھے گئے ہیں، ہتھیار اٹھانے سے قبل زرا جائزہ لیجئے کیا منتخب نمائندے صحت کے شعبے میں اتنے اخراجات کررہے ہیں؟ اگر نہیں تو یہ رقم کہاں جارہی ہے؟ کیا خیبر پختونخواہ کا کوئی نوجوان یہ بجٹ کھا جاتا ہے؟

سندھ میں آج تک تھر کے لوگ میلوں سفر طے کرکے پانی حاصل کرتے ہیں وہ پانی بھی پینے کے قابل ہوتا ہے یا نہیں سب جانتے ہیں۔ یہ اس سندھ کی بات ہورہی ہے جس کے کنارے سمندر ہے اور سندھ کے درمیان سے دریائے سندھ گزرتا ہوا غریق سمندر ہوتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد بھی اگر اتنے وسائل نہیں کہ سب کو پینے کا صاف پانی مل سکے تو کیا یہ ظلم کسی اور صوبے کے لوگوں کا ہے؟ پنجاب میں کسانوں پر کوئی بااثر شخص ظلم ڈھاتا ہے تو کیا اس کا ذمہ دار کراچی کا کوئی نوجوان ہے؟ ماضی میں کراچی میں جو لاشیں گریں اس کا ذمہ دار کون تھا یہ بھی سب جان ہی چکے ہیں۔ ہمیں اب ان نفرتوں سے باہر نکلنا ہوگا۔ تبدیلی کے نعرے نہیں ہمیں اصل تبدیلی کی جانب سفر کرنا ہوگا۔ ظلم آخر ظلم ہوتا ہے وجہ کوئی بھی ہو لیکن اس بات کا دفاع کسی صورت نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی ہتھیار اٹھالے اور معصوم شہریوں کی جان لینا شروع کردے۔

ایک عام پاکستانی کے دل میں دوسرے پاکستانی کے لئے محبت ہی ہے ایک مخصوص ٹولا ملک میں موجود ہے جسے اپنے مفادات عزیز ہیں۔ یہ ٹولا اپنے مفادات پر ہی اسمبلی میں بات کرتا ہے، یہ ٹولا عوام کو تقسیم کرکے راج کرتا ہے، ایک ٹولا ایسا ہے جو ملک دشمن عناصر کے جال میں پھنس کر یا پھر ضمیر فروشی کرکے ہتھیار اٹھا لیتا ہے اور اسے ظلم کے خلاف بغاوت کا نام دیتا ہے۔ یاد رکھیں امن دشمنوں، ملک دشمنوں کی ایک ہی سزا ہے اور وہ موت ہے۔ اگر کہیں پر وسائل کی تقسیم منصفانہ انداز میں نہیں یا وسائل کا حصول نہیں تو اس کا ذمہ دار اور کوئی نہیں ہمارا غلط انتخاب ہے۔ آنے والے وقتوں میں  نوجوانوں کو ملکی سیاست میں حصہ لینا ہوگا اور اپنی ترقی کیلئے آئینی راستے کا انتخاب کرنا ہوگا اگر ایسا نہیں کرسکتے تو پھر خاموش بیٹھنا بہتر ہے کسی کی جان لینے کی اجازت کسی کو نہیں دی جاسکتی۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں