نقلی دودھ اور ایملسیفائر

0
35

تحریر: رضوان عامر

خوردنی تیل کو اگر پانی میں حل کرنے کی کوشش کریں تو کیا

ہوگا۔ جتنی دیر پانی اور تیل کے آمیزے میں چمچ چلاتے جائیں گے اتنی دیر تیل کے چھوٹے چھوٹے قطرے  پانی میں منتشر رہیں گے، مگر جیسے ہی ہلانا موقوف کریں گے تھوڑی دیر میں تیل علیحدہ ہو کر سطح پر آجائے گا۔

لیکن کچھ قدرتی اور مصنوعی کیمیائی مرکبات ایسے بھی ہیں جن کو اگر انتہائی کم مقدار میں تیل اور پانی کے آمیزے میں شامل کرکے اچھی طرح ہلایا جائے تو تیل پانی میں حل ہو کر بالعموم سفید محلول کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس محلول کو ایملشن کہتے ہیں اور ایسے کیمیائی مرکب کو تیل کو پانی میں حل کرنے کا ضامن ہو ایملسیفائر کہا جاتا ہے۔

دودھ دنیا کا قدیم ترین ایملشن ہے۔ جس میں قدرت نے چکنائی اور پانی آپس میں زبردست طریقے سے مِکس کئے ہیں۔ دودھ میں ایملسیفائر کا کردار مِلک پروٹین ‘کے سین’ ادا کرتی ہے۔ اسی طرح جب ہم مائیونیز بناتے ہیں تو تیل اور پانی کے آمیزے میں انڈے کی سفیدی ایملسیفائر کا کام کرتی ہے وہ پانی اور تیل کو جدا نہیں ہونے دیتی۔

آج کی جدید دنیا میں ہمارا واسطہ ہر قدم پر ایملشن اور ایملسیفائر سے پڑتا ہے۔ برسبیل تذکرہ ہیئر ٹانک، ہئیر کنڈیشنر سے لیکر کولڈ کریم، مائسچورایزنگ ملک تک اور وائیٹنگ کریم سے لیکر پرکلی ہیٹ کریم تک ہر چیز ایملشن ہے اور اس میں ایک یا ایک سے زائد ایملسیفائر شامل ہیں۔ جو لوگ زرعی ادویات (پیسٹیسائڈز) سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ بہت سے پیسٹی سائیڈز جب پانی میں ڈالتے ہیں تو ایملشن سفید دودھ یا لسی کی طرح بنتا ہے جو کہ ایملسیفائر کی وجہ سے بنتا ہے۔

کھانے پینے کی اشیاء میں فریش کریم کیک کی کریم، آئسکریم یا بالخصوص فروزن ڈیزرٹ، مائیونیز، بسکٹ کی کریم، کریم رول اور کریم پف کی کریم، مارجرین یا نقلی مکھن اور ٹی وہائٹنرز یا نقلی دودھ سب کے سب ایملشن ہیں. جن میں قدرتی یا مصنوعی ایملسیفائر ملائے گئے ہیں۔

حضرت انسان کی بہت دیرینہ خواہش تھی کہ وہ کسی طرح نقلی دودھ تیار کرلے لیکن ایک عرصہ تک دستیاب ایملسیفائر اس قابل نہیں تھے کہ ان سے نقلی دودھ تیار کیا جاسکتا۔ تاوقتیکہ چند دہائیوں قبل سویا لیسیتھین کا بطور ایملسیفائر استعمال دریافت ہوا۔ سویا لیسیتھین سویا بین سے سویابین کاتیل نکالنے عمل کے دوران تیل سے علیحدہ کیا گیا ایک مرکب ہے۔ جب سے اس کا استعمال بطور ایملسیفائر دریافت ہوا ہے سمجھیں فوڈ ٹیکنالوجیسٹ کے ہاتھ ایک جادو آگیا ہے۔

بسکٹ، کیک، بن، کریم، مارجرین، چاکلیٹس حتی کہ ڈبل روٹی تک کا بننا اب سویا لیسیتھین کے بنا محال ہے۔ آپ کسی بھی کھانے والی چیز کے ریپر پر اجزاء ترکیبی کی فہرست دیکھیں آپ کو سویا لیسیتھین یا صرف ایملسیفائر لکھا ضرور نظر آئے گا۔

نقلی دودھ کیلئے تھوڑے سے خوردنی تیل اور سویا لیسیتھین کو ایک اور کیمیائی مرکب کے ساتھ (جس کا نام بوجوہ نہیں دیا جارہا) ملا کر تھوڑے زیادہ چکروں کی مدھانی میں گھمائیں اور اس میں کچھ مٹھاس اور مصنوعی ذائقہ شامل کریں۔ بس نقلی دودھ یا ٹی وہائٹنر تیار ہے۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق بغیر پیکنگ نقلی دودھ کی قیمت زیادہ سے زیادہ بیس روپے فی لیٹر پڑتی ہے۔ جس کا ایک پاؤ کا پیکٹ ہم پچیس، تیس روپے میں خریدتے ہیں۔ اس میں غذائیت نہ ہونے کے برابر ہے اور منافع بیشمار! اسی لیے کمپنیاں بہت ناچ گانے والے اور بیحد ترغیباتی ناچ گانے والے اشتہارات کی مدد سے اسے فروخت کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

سویا لیسیتھین کا استعمال ہمارے چاہتے نہ چاہتے ہوئے ہماری زندگی میں بہت بڑھ گیا ہے۔ اس لیے اس کے نقصانات پر بھی بہت تحقیق ہورہی ہے۔ ایک تازہ ترین تحقیق کے مطابق مردوں میں بڑھے ہوئے پیٹ کی سب سے بڑی وجہ سویا لیسیتھین کا استعمال ہے۔ اس کے علاوہ ایک ایسے نقصان کے بابت بھی اہل علم کے ہاں چہ میگوئیاں چل رہی ہیں جس کا ذکر کرنے سے بہت سے بڑھے ہوئے پیٹوں والے سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے۔
 
سو عزیزانِ گرامی! جہاں تک ممکن ہو مصنوعی اور نقلی چیزوں اور بازاری اشیاء سے اجتناب کرنا چاہیے۔ کیونکہ ہم بالکل بھی نہیں جانتے کہ ہم ذائقہ اور اشیاء کی خوبصورتی کے نام پر کیا کیا کھلایا جارہا ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں