گھاٹے کا سودا

0
359

تحریر: راجہ فیاض

اچھے دوست اور برے دوست کی مثال کستوری اٹھانے والے اور بھٹی جھونکنے والے کی مانند ہے۔ (حدیث پاک نبی کریم ﷺ)

8 بار جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے مرکزی امیر رہنے والے  عبدالرشید ترابی نے نودولتئیے سردار تنویر الیاس سے زاتی مفاد کے لیے تعلق قائم کرکے عمر کے آخر میں 5 دہائیوں کی عزت برباد کردی۔

آزاد کشمیر کی سیاست جس کی اصل وقعت جی او سی  مری کے دفتر کے کسی کلرک کے آگے ہر وقت سر تسلیم خم ہی رہی ہے کی سیاست میں اس بار دولت کی وبا نے بہت سے سیاستدانوں اور موقع پرست چیلے چماٹوں کی چاندی کروادی ہے وہیں ایک افسوسناک اور غیر معمولی واقعہ بھی گزشتہ روز رونما ہوا ہے۔

 ایک شخص عبدالرشید ترابی جس نے 50 برس تک ایک عظیم اور بلند مقصد کے حصول میں گزار دی اپنا ضمیر اپنے اصول اپنا نظریہ دنیاوی مفادات کی خاطر نیلام کردیا،
پاکستان یا آزاد کشمیر کی سیاسی تاریخ میں اس واقعہ کو ہمیشہ  یاد رکھا جائیگا۔ لگ بھگ 50 برس جماعت اسلامی سے وابستہ اور 8 بار امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر عبدالرشید ترابی جن پر یہ الزام ثابت ہوگیا کہ انہوں حالیہ انتخابات میں نودولتیے اور دھن دولت کے بل بوتے پر اپنے تئیں خود کو آزاد کشمیر کا وزیراعظم منتخب ہوجانے کا گھمنڈ رکھنے والے سردار تنویر الیاس کے حق میں دستبردار ہونے اور جماعت اسلامی کی ضلعی قیادت کو جھوٹ اور غلط بیانی کرتے ہوئے ان کی حمایت کا اعلان کردیا۔

عبدالرشید ترابی شاید گزشتہ 2016 کے انتخابات کی طرح اس بار بھی اس غلط فہمی کا شکار رہے کہ جس طرح انہوں 2016 کے انتخابات میں زاتی حثیت میں ن لیگ کے مشتاق منہاس کے حق میں دستبردار ہوکر ٹیکنو کریٹ کی نشست پر اکتفا کرلیا تھا وہ اس بار بھی اپنے سابقہ کردار کو دہرا سکیں گے لیکن کہتے ہیں کہ انسان خود کو جتنا چاہے شاطر اور چالاک سمجھ لے ایک نہ ایک دن اس کی تمام چالاکیاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔

عبدالرشید ترابی کے زاتی فیصلے کو اعلانیہ مسترد کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر ڈاکٹر خالد محمود خان نے اراکین شوریٰ کی مشاورت سے باغ جماعت اسلامی کی تنظیم توڑ دی ہے اور عبدالرشید ترابی کا جماعت اسلامی سے اخراج کا اعلان کرکے ایک ایسی مثال قائم کی ہے جسے تاریخ ہمیشہ سنہرے الفاظ میں یاد رکھے گی۔

یہ الفاظ لکھتے ہوئے بہت دکھ ہورہا ہے کہ عبدالرشید ترابی جنہیں نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ پورے پاکستان میں ایک باکردار سیاسی شخصیت کے طور پہچانا جاتا تھا انہوں نے ایک نودولتیے رئیس کے قدموں میں اپنی 50 برسوں کی عزت اور وقار کو دائو پر لگادیا۔
 
آزاد کشمیر کی سیاست میں بے پناہ دولت اور اثر رسوخ رکھنے والے سردار تنویر الیاس کا اچانک نمودار ہونا اور ہمارے ملک کے گلے سڑے کمزور اور بندوق والوں کے زیر طابع بلکہ تلوے چاٹنے  والی سیاست میں ترابی صاحب جیسی شخصیت کا ان کا حامی بن جانا کسی المیے سے بہرحال کم نہیں۔ سردار تنویر الیاس جن کے پاس کہتے ہیں دولت کا شمار نہیں انہوں نے آزاد کشمیر کی سیاست کو بھی کسی طوائف کا کوٹھا  یا بازار حسن بنا کر رکھ دیا ہے، جہاں ہر ایک دولت کے بدلے اپنا آپ بیچ رہا ہے کہیں پڑھا تھا دولت کمزور انسان کو سب سے پہلے اپنے دام میں جکڑ لیتی ہے اور کمزور انسان دولت کی چکا چوند سے اتنا مرعوب ہوجاتا ہے کہ اسے اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا یہ مرعوبیت انسان میں مادی خواص کو ہی تقویّت دیتی ہے۔مادی خواص جیسے صورت، رنگ و بو اور نقش و نگار  وغیرہ انسان کے مطمح نظر بن جاتے ہیں۔ انسان ظاہر بین بن جاتا ہے۔ وہ تمام امور اسی دائرے میں سر انجام دیتا ہے۔ عمدہ سے عمدہ گھر، نفیس سے نفیس لباس، اچھے سے اچھے کھانے کی حِرص پیدا ہو جا تی ہے۔ یہ حرص بڑھتے بڑھتے رفاہیتِ بالغہ پرعیش زندگی کی شکل اختیار کرتی ہے اور انسان اس مادی ترقی کو ہی معیارِ شرف ٹھہرا لیتا ہے۔
عبدالرشید ترابی کے اس فیصلے نے جس کے بدلے ممکن ہے انہیں بہت کچھ دیا ہو اگر ایسا ہوا تو تب بھی یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ عبدالرشید ترابی نے وہ سب کچھ کھو دیا جو انہوں نے 50 برس تک ایک عظیم تحریک کے ساتھ منسلک رہ کر کمایا تھا۔

ابھی ایک لائق احترام بھائی کی یہ پوسٹ پڑھ کر بہت تکلیف ہوئی۔ ‘رشید ترابی صاحب اور وسطی کی برادری’۔

1996 سے قبل رشید ترابی کو وسطی باغ میں کوئی نہیں جانتا تھا 1996 میں برادری کو کسی بھی بڑی جماعت کا ٹکٹ نا ملا تو برادری ساری رشید ترابی صاحب کے پیچھے کھڑے ہوگٸی اور رشید ترابی صاحب کو اسمبلی میں پہنچادیا۔ وہ دن آج کا دن ترابی صاحب نے فیصلہ کر لیا کہ جب تک زندہ ہوں الیکشن لڑتا رہوں گا۔

2001 کا الیکشن راجہ سبیل کے خلاف لڑے اور ہار گٸے۔ 2003 میں راجہ سبیل کی وفات کے بعد ضمنی الیکشن پھر ہار گٸے۔

2006 میں کرنل نسیم کے خلاف الیکشن لڑا اور پھر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ترابی صاحب صرف الیکشن کے دوران نارمے بن جاتے اس کے بعد کہتے کہ میرا نارمہ برادری سے کوئی تعلق نہیں۔

2011 میں کرنل نسیم کی پیٹھ پہ چھورا گونپا اور مسلم لیگ ن کا اتحادی ٹکٹ لے کے آئے اور کرنل نسیم کو آئوٹ کر دیا۔ کرنل نسیم نے آزاد امیدوار کی حثیت سے الیکشن لڑا اور ترابی صاحب کے پاس اتحادی ٹکٹ ہونے کے باوجود بری طرح الیکشن ہار گٸے۔ یوں نارمہ برادری کو اسمبلی سے آئوٹ کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔

2016 میں رشید ترابی صاحب ایک دفعہ پھر مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد کرکے آٸے اور مشتاق منہاس کی الیکشن مہم چلانے لگے۔ مشتاق منہاس نارموں کو سیاسی طور پہ ذبح کرکے ٹکٹ لے آیا تھا لیکن ترابی صاحب کو اسمبلی میں جانا تھا، خود اسمبلی میں تو خیراتی سیٹ سے چلے گٸے لیکن برادری کا ستیاناس کرگٸے۔ پانچ سال اسمبلی میں رہے وسطی باغ کے لیے کوئی کام نا کر سکے۔ اس دوران پروفیسر انور قتل کیس ہوا تو ترابی صاحب نے وہاں بھی پوری برادری کو مایوس کیا اور آج پروفیسر انور کی فیملی ازل سے جماعت اسلامی میں تھی وہ بھی کسی اور کے ساتھ چلی گٸی۔

ترابی صاحب کا تنویر الیاس جیسے مشکوک اور انتہائی متنازعہ کردار کے ساتھ مفاد کی جڑنا اور بے آبرو ہونا بہرحال ایک سبق بھی ہے۔

مثل الجلیس الصالح والجلیس السوء کحامل المسک ونافخ الکیر ،فحامل المسک اما أن یحذیک ،واما أن تبتاع منہ،واما أن تجد منہ ریحا طیبۃ،ونافخ الکیر اما أن یحرق ثیابک،واما أن تجد منہ ریحاخبیثۃ))[متفق علیہ]
’’اچھے دوست اور برے دوست کی مثال کستوری اٹھانے والے اور بھٹی جھونکنے والے کی مانند ہے، کستوری اٹھانے والا یا تو آپ کو ہدیہ میں دے دیگایا آپ اس سے خرید لیں گے یا کم از کم اچھی خوشبو تو پائیں گے، جبکہ بھٹی جھونکنے والا آپ کے کپڑوں کو جلا دے گا یا کم از کم آپ اس سے بدبوپائیں گے۔‘‘

نبی کریم ﷺ نے اس مثال کے ذریعہ معقول کو محسوس کے قریب کر دیا ہے۔ جس سے صحبت کے اثرات کو سمجھنے میں مدد ملے گی کہ جس طرح کستوری والے کے پاس بیٹھنے سے فائدہ ہی فائدہ ہے اسی طرح اچھی صحبت اختیار کرنے سے انسان خیر اور بھلائی میں رہتا ہے جبکہ بھٹی جھونکنے والے پاس بیٹھنے سے نقصان ہی نقصان ہے اسی بری صحبت اختیار کرنے سے انسان خسارہ میں ہی رہتا ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں