اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ صحافی مدثر نارو کیس کی سماعت ہوئی۔ رجسٹرار لاپتہ افراد کمیشن نے اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ لاپتہ افراد کمیشن کی ایک رپورٹ لاپتہ ہو گئی اور گیارہ سال میں کمیشن نے حکومت کو کوئی رپورٹ یا سفارش پیش نہیں کی۔ جس پر چیف جسٹس اطہر من الللہ نے کہا کہ لوگ اٹھائے جا رہے ہیں اور آپ نے آج تک رپورٹ نہیں دی۔ لاپتہ افراد کمیشن کا اصل کام شہریوں کے لاپتہ ہونے کے عمل کو روکنا تھا اور لاپتہ افراد کمیشن نے آج تک کسی جبری گمشدگی کے ذمے دار شخص کیخلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔
رجسٹرار کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد کمیشن کا کام صرف پروڈکشن آرڈر جاری کرنا ہوتا ہے۔ اڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے عدالت کو بتایا کہ ساڑھے چھ ہزار افراد بازیاب بھی ہوئے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس اطہر من الللہ نے کہا کہ اگر افراد بازیاب ہوئے ہیں تو بتائیں انکی گمشدگی کا ذمے دار کون تھا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس کمال منصور عالم کی لاپتہ رپورٹ بارے وزارت داخلہ سے پوچھیں اور کیوں نہ یہ عدالت قرار دے کہ لاپتہ افراد کا کمیشن اپنی تشکیل کے مقصد کے حصول میں ناکام ہو چکا ہے۔
لاپتہ افراد کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین معاشی اور معاشرتی اذیت سے گذر رہے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس اطہر من الللہ نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ تو میں نے بہت پہلے کا فیصلہ دے دیا ہے، اب آپ حکومت کو ایک درخواست ڈال دیں۔
لاپتہ افراد کے وکیل نے عدالت میں بتایا کہ لاپتہ افراد کمیشن نے گیارہ سال میں جبری گمشدگی کے ذمے دار ایک اہلکار کیخلاف بھی کاروائی نہیں کی۔ کمیشن پروڈکشن آرڈر کی کاپی تک لواحقین کو فراہم نہیں کرتا اور یہ جبری گمشدگی کے جرم میں اعانت کار ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن کو پروڈکشن آرڈر کی کاپی دینی چاہئیے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے کئی سال بعد استدعا کی کہ اگلی تاریخ پر آپ عدالت کو بتا دیں کہ اس سارے مسئلے کا حل کیا ہے،بتائیں کس کو ذمے دار ٹھہرایا جائے؟۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریماركس دیے کیوں نا عدالت قراردے جبری گمشدگیوں کا کمیشن اپنےقیام کےمقاصد پورے کرنے میں ناکام رہا؟۔ کمیشن کا کام جبری گمشدگیوں كو روكنے كیلئے تجاویز دینا تھا۔ 11سال ہوگئے آپ نے آج تک اس کو روکنے کی تجاویز ہی پیش نہیں کیں۔
جبری گمشدگی كمیشن حكام نے بتایا کہ 450 کیسز میں پروڈکشن آرڈرز جاری کیے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو انہی کیسز میں جاری کیا ہوگا جن میں آپ کوش کہ تھا وہ جبری گمشدگی کا کیس ہے۔ لوگوں کو ذمہدار ٹھہرانا تھا جو آپ نہیں كرسكے اور اگر کچھ کیسز میں بازیابی ہوئی تو پھر گمشدگیوں کا ذمہدار کون تھا؟۔