عمران خان کا 37 سربراہان مملکت ‘آزادی صحافت کے شکاریوں یا دشمنوں’ کی فہرست میں شامل

0
93

کراچی: عمران خان، نریندر مودی، طیب اردغان اور محمد بن سلمان سمیت 37 سربراہان مملکت ‘پریڈیٹرز آف پریس فریڈم ‘ کی فہرست میں شامل ہیں۔

صحافیوں کے حقوق اور تحفظ کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ‘رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز’ نے پیر کو ایسے 37 ممالک کے سربراہوں کی فہرست شائع کی ہے جو اپنے ملک میں میڈیا سنسرشپ، صحافیوں کو قید کر کے، انھیں تشدد کا نشانہ بنا کر، ہراساں کر کے یا انھیں نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل کروا کر آزادی صحافت کو مسلسل دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

‘رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز’ نے اس فہرست کو ‘ پریڈیٹرز آف پریس فریڈم’ یعنی آزادی صحافت کے شکاریوں یا دشمنوں کا نام دیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں آزادی صحافت پر بڑھتی قدغنیں اور بندشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں اور آئے روز صحافیوں پر تشدد، اغوا، ہراساں کرنا یا قتل کے واقعات کے ساتھ ساتھ ان کی زبان بندی کا عمل بھی جاری ہے۔

ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس یعنی آزاد صحافت کی صورتحال کی عالمی فہرست کے مطابق 180 ممالک میں سے پاکستان کا شمار 145ویں نمبر پر ہوتا ہے۔

رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا نام بھی ‘پریڈیٹرز آف پریس فریڈم’ فہرست میں شامل کیا ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عمران خان ہر وقت مرکز نگاہ رہنا پسند کرتے ہیں، انھوں نے سیاست میں قدم رکھنے سے قبل بطور ایک قومی کرکٹ سٹار کے یورپی ممالک میں فیشن ایبل زندگی بسر کی اور سنہ 2018 کے انتخابات کے نتیجہ میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک میں آزادی صحافت پر قدغنیں لگانا شروع کر دیں۔ ان کے دور حکومت میں جمہوری قوتیں کمزور ہوئیں اور سویلین بالادستی کی جگہ ملک کی فوجی اسٹیبلمشنٹ کی ‘ڈیپ سٹیٹ’ کو مزید تقویت ملی۔

رپورٹ کے مطابق ان کے دور حکومت میں ملک میں مذہبی قدامت پسندی، مقبولیت کے نظریے اور توہین مذہب کے قانون پر تنازعات نے جنم لیا۔ اس میں مزید لکھا گیا کہ ان کے دور حکومت میں حکومتی حامی میڈیا، سوشل میڈیا کو پروان چڑھایا گیا اور آزاد صحافت کرنے والے صحافیوں کو قانونی مقدمات، قاتلانہ حملے، تشدد اور سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آر ایس ایف نے کہا ہے کہ اس کے پس منظر میں ’فوجی انتظامیہ‘ نے جو کسی کی اپنے معاملات میں دخل اندازی پسند نہیں کرتے آزادی صحافت کو ہر طرح سے دبانے کی کوشش کی ہے۔

اس میں مزید لکھا ہے کہ جب سے عمران خان اقتدار میں آیے ہیں، ملک کے پرنٹ، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر مختلف طریقوں سے پابندیاں عائد کی گئی ہیں جن میں اشتہارت کو روکنا، ٹی وی چینلز کی نشریات بند کرناسمیت ان صحافیوں پر تشدد اور ان کا اغوا بھی شامل ہے۔

رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کا دور حکمرانی ماضی کی آمرانہ حکومتوں کی یاد دلاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ملک میں حکومت کے ناقدین صحافیوں کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیا گیا ہے جن میں انھیں کسی معاملے پر رپورٹ کرنے پر دھمکیاں ملنا بھی شامل ہے۔ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ملک سے باہر جانے والے صحافیوں کو ان ممالک میں بھی ہراساں کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت کے دوران ملک کے سوشل میڈیا پر بھی آزادانہ تبصروں اور رائے عامہ کو سخت سوشل میڈیا قوانین کا نفاذ کر کے ختم کیا جا رہا ہے۔ اور جو صحافی سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کے لیے تیار کیے جانے والے جتھوں کا سامنا کرنے کی جرات رکھتے ہیں ان پر ‘پاکستان مخالف’ ‘فوج مخالف’ اور ‘عمران خان مخالف’ قرار دیا جا رہا ہے۔

رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے ملک میں آزادی صحافت اور حکومتی بیانیے کے ایک مثال دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ‘ سنہ 2019 جولائی میں جس وقت وزیر اعظم عمران خان نے واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس میں ملک میں آزادی صحافت پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں آزادی صحافت دنیا میں سب سے زیادہ ہے، اس کے چند گھنٹوں بعد ہی پاکستان کے ایک بڑی نجی ٹی وی چینل جیو ٹی وی کی نشریات بند کر دی گئیں تھی۔’

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈر نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سنہ 2016 کے پانچ برس بعد شائع کردہ ‘پریڈیٹرز آف پریس فریڈم’ کی فہرست میں 17 ممالک کے سربراہان کو پہلی بار شامل کیا گیا ہے جو اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک کے میڈیا پر قدغنیں لگا رہے ہیں۔ ان میں سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان بھی شامل ہیں۔

رپورٹرز ودآؤٹ بارڈز کے سکیرٹری جنرل کرسٹفی ڈیلور کا اس فہرست کے متعلق کہنا تھا کہ ‘پریڈیٹرز آف پریس فریڈم فہرست میں دنیا بھر کے 37 سربراہان مملکت کو شامل کیا گیا ہے لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ فہرست جامع ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہر ملک کے سربراہ کا آزادی صحافت کو ختم کرنے کا اپنا طریقہ ہے، کوئی غیر منطقی اور بے بنیاد احکامات جاری کر کے دہشت کا راج قائم کرتے ہیں تو کوئی سخت قوانین پر مبنی حکمت عملی اپناتے ہیں۔ چیلنج یہ ہے کہ ہم حکمرانوں کے ہتھکنڈوں کو معاشرے میں مقبول نہ ہونے دیں۔‘

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں