لاہور پر خوف کے سائے

0
100

تحریر: محمد اعظم خاور

یہ 27 دسمبر 2007 کی بات ہے یہ پاکستان کے سب سے خوبصورت اردو اخبار روزنامہ “آج کل” کی ا بتدا کا زمانہ ہے، حسب معمول شام کے وقت ایک کولیگ عظیم گوہر گلبرگ کے علاقے کینال پارک میں آتے ہیں اور ہم گرومانگٹ روڈ پر پیپسی کولا فیکٹری کے پاس روزنامہ “آج کل” اور ڈیلی ٹائمز کے دفتر آجاتے ہیں۔
عظیم گوہر شعبہ صحافت میں ایک نفیس انسان ہیں، جسے ایک سال سے کوئی مفت میں دفتر لے کر آئے اور پھر رات ایک دو بجے واپس گھر چھوڑ کر جائے اسے تو وہ ویسے بھی سارے جہاں سے اچھا لگتا ہے یہی معاملہ کچھ یہاں بھی تھا۔
دفتر میں عظیم گوہر کا کام نام کی طرح عظیم تھا اور خاکسار کی ڈیوٹی بھی اس کے “نام” کے حساب سے ہی تھی۔

روزنامہ “آج کل” اخباری دنیا کا ایک “ٹائی ٹینک” تھا جسے کچھ ناعاقبت اندیشوں نے ڈبو دیا۔ روز نامہ “آج کل” میں ہی “دو ٹکے کے صحافیوں” کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دن میں دو بار چائے، منرل واٹر اور معیاری کھانا مفت میں ملا، اگر ایک ہی دن میں متعدد بار مہمان بھی آجاتے تو  مہمان و میزبان مفت ہی چائے پانی  سے مستفید ہوتے۔

نیوز روم میں کام کرنے والے سبھی دوست جانتے ہیں کہ دفتر پہنچ کر سب سے پہلے اخبارات کی فائل تلاش کی جاتی ہے فائل نہ ملے تو عظیم گوہر جیسے بندے ای پیپرز پڑھ لیتے ہیں اور اعظم خاور جیسے تھوڑی “آواہ گردی” لیتے ہیں۔

اس روز باقاعدہ کام ابھی شروع نہیں کیا تھا کہ خبر ملی کہ راولپنڈی میں میاں نواز شریف کے قافلے پر حملہ ہوا اور محترمہ بے نظیر بھٹو پر فائرنگ۔

چیف نیوز ایڈیٹر عموماً روزانہ دفتر آتے ہی بڑی خبر کی تلاش میں ہوتا ہے کہ جلدی سے جلدی اخبار کیلئے لیڈ سٹوری مل جائے مگر اس روز یہ “بڑی خبر” سن کر نیوز روم کا ہر فرد ہی سوگوار تھا۔

خبر میچور ہونے میں کچھ وقت لگا اور روزنامہ دن سے حافظ نعمان صاحب کی کال آتی ہے کہ ” محترمہ بینظیر بھٹو شہید ہوگئی ہیں اور یہ خبر اب بی بی سی اُردو نے بھی کنفرم کردی ہے” حافظ صاحب کے فون سے پہلے ہمارے نیوز روم میں بھی سوگ کا سماں شروع ہوچکا تھا۔

روز نامہ “آج کل” کے ایڈیٹر خالد چودھری صاحب کی پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کے ساتھ ذاتی و نظریاتی وابستگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی ان کے لئے تو یہ بہت بڑے غم کی گھڑی تھی ہی لیکن پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی سربراہ اور سابق وزیر اعظم کا یوں دن دہاڑے قتل عام کوئی معمولی بات نہیں تھی۔

خوف پوری طرح نیوز روم میں چھا چکا تھا، طاہر پرویز بٹ صاحب جیسے جہاں دیدہ سینئر ساتھی نے سارے سٹاف کو ہدایت کی کہ آج جلدی جلدی اخبار پرنٹنگ پریس میں بھجوا کر گھر جانے کی تیاری کریں کیونکہ ملک بھر میں جلاؤ گھیراؤ کا خدشہ ہے۔

لاڑکانہ، کراچی، حیدر آباد اور لاہور سمیت ملک بھر سے توڑ پھوڑ کی خبریں جیسے جیسے آنا شروع ہوتی گئیں ویسے ویسے ہی خوف و ہراس بھی بڑھتا چلا گیا۔

جہاں تک یادداشت کام کرتی ہے اس روز اخبار معمول سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ پہلے پریس میں بھجوا دیا گیا۔ سب دوست اپنے اپنے گھروں کو ہو لئے۔

اپنا عظیم گوہر کہنے لگا کہ میں آج بھی آپ کو گھر تک ڈراپ کر آتا ہوں۔ اسے جواب دیا کہ “جناب آپ جلدی گھر پہنچیں آپ کی فیملی پریشان ہے۔ ہمارے نارووال تو کسی کو خبر بھی نہ  ہوگی کہ ہم نے کیسے گھر جانا ہے”۔

خیر اللہ نبی کا نام لے کر دفتر سے پیدل مارچ شروع کردیا ہر قدم پر خوف ہی خوف محسوس ہوا، گو کہ گرومانگٹ روڈ سے لے کر مین مارکیٹ تک مکمل سنسانی تھی لیکن جب بھی کوئی پاس سے گزرا ایک عجیب سا خوف محسوس ہوا۔

لاہور میں رہتے ہوئے ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا تھا بم دھماکے، خود کش حملے بھی پاکستان میں معمول کی بات تھی لیکن محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت والی رات ایک عجیب خوف والی بات تھی۔

دفتر سے گھر تک ڈیڑھ دو کلو میٹر کا فاصلہ سمٹنے کے بجائے طویل سے طویل ہوتا جارہا تھا۔
خوف و ہراس میں آگے پیچھے دیکھتے یہ کٹھن سفر جاری تھا کہ مین مارکیٹ سے آگے بازار میں دیکھا کچھ لوگ آگ کے الاؤ کے پاس بیٹھے تھے اس رات یہ واحد جگہ تھی جہاں کوئی شہری نظر آیا، یہ لوگ چودھری مونس الٰہی کے انتخابی دفتر کے باہر موجود تھے۔
ق لیگ ان دنوں جنرل مشرف کی چھتری تلے الیکشن لڑ رہی تھی لیکن رات کے اس پہر تک ابھی محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام کسی بھی فریق پر نہیں لگ سکا۔

لاہور میں خوف کے جو سائے اس رات محسوس ہوئے بلکہ رات کے اندھیرے میں ساتھ ساتھ چلے وہ آج بھی محسوس ہوتے۔

آج پھر 27 دسمبر ہے اور حُسن اتفاق یہ ہے کہ ہم وقتی ہجرت کے باوجود آج پھر لاہور میں موجود ہیں اور علاقہ بھی گرومانگٹ روڈ ہی ہے مگر آج اس روڈ پر ہی مسکن ہے۔
آج لاہور پریس کلب کے انتخابات تھے ووٹ ڈالا اور سیدھا کمرے میں آکر لیٹنے میں عافیت جانی۔ لیٹے لیٹے 27 دسمبر 2007 نظروں کے سامنے گھومنے لگا تو سوچا چند الفاظ احباب کی نذر کردینے میں کیا ہرج ہے؟۔

یہ بھی کیسا حالات کا ستم ہے کہ 27 دسمبر 2007 کو نواز شریف محترمہ بینظیر شہید کی میت کے پاس راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں موجود اور آج ان کی صاحبزادی مریم نواز گڑھی خدا بخش میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے مزار پر ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کیساتھ سٹیج پر موجود ہیں۔

2007 میں عمران خان نے عام انتخابات کا بائیکاٹ کردیا تھا جبکہ نواز شریف کو بینظیر بھٹو نے بائیکاٹ نہ کرنے پر راضی کرلیا تھا۔
آج عمران خان پاکستان کا وزیر اعظم  ہے اور نواز شریف اور بینظیر شہید کی اولادیں ان کے خلاف مورچہ زن ہیں۔

27 دسمبر 2007 سے لے کر27 دسمبر 2020 تک کے سفر پر نظر دوڑائی جائے تو بہت کچھ بدل چکا ہے نہیں بدلا تو غریب کا مقدر نہیں بدلا۔

آج 27 دسمبر 2020 ہے 27 دسمبر 2007 میں آمر جنرل مشرف اور روزنامہ “آج کل” اپنے عروج پر ہے آج مشرف اور “آج کل” دونوں ہی ڈمی ہیں۔
“آج کل” مارکیٹ میں نہیں آتا اور مشرف ملک میں نہیں آ سکتا۔
ہر عروج کو زوال ہے یہی وقت کا سبق اور زمانے کا دستور ہے۔ پاکستان میں تو  ویسے بھی عروج و زوال راتوں رات آتا ہے۔خدا کرے خوف کا یہ سفر تھم جائے کیونکہ دسمبر ویسے بھی ہمارے ملک کی تاریخ میں بہت بھاری ہے وردی اور بغیر وردی دونوں کیلئے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں