احوال آزاد کشمیر کے الیکشن

0
278

تحریر: ماریہ چوہدری

آزاد کشمیر میں انتخابی دنگل کا معرکہ پچھلے کئی ماہ پہلے سے ہی شروع ہو چکا ہے۔ آزاد کشمیر الیکشن  ہمارے یہاں حکومت اور اپوزیشن کے لئے ٹیسٹ کیس ہوتا ہے، جس طرح بائی الیکشن (ضمنی الیکشن) ایک پیرا میٹر ہوتا ہے کہ عوام میں مقبولیت کا معیار پرکھا جاتا ہے۔ آزادکشمیر الیکشن اس لئے بھی بہت اہم ہیں کہ پاکستان کی تمام پارٹیوں کے منشور میں کشمیر ہمیشہ اہمیت نمبرون رہا ہے۔

 ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کے لئے ہزار سال جنگ کا اعلان کیا، میاں محمد  نواز شریف نے واجپائی کے ساتھ ’’اعلان لاہور‘‘ بھی کیا تھ، واجپائی مان کر گیا کہ کشمیر کا مسئلہ جنگ سے نہیں ٹیبل پر بیٹھ کر حل ہوگا۔

برہان وانی کو میاں محمد نواز شریف نے فریڈم فائٹر قرار دیا اور برہان وانی کا ذکر اقوام متحدہ تک کیا اور پاکستان میں برہان وانی کی شہادت کو میاں نواز شریف کے دور تک منایا جاتا رہا، پہلے چونکہ دو پارٹیاں ہی کشمیر میں الیکشن لڑتی تھیں مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی لیکن اب تیسری پارٹی بھی متحرک ہوچکی ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت وفاق میں موجود ہے۔

کشمیر الیکشن پر وفاقی حکومت کا کافی اثر و رسوخ ہوتا ہے لیکن عمران خان نے کشمیر کے لئے باتیں تو بڑی ہیں لیکن عملی طور پر کوئی بھی کام نہیں کیا۔ یہاں تک دوسری پارٹیوں کے لوگ کشمیر میں جا کر یہ بتا رہے ہیں کہ انڈیا نے جو کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کی وہ عمران خان کی مرضی سے ختم کی جس کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کیا گیا۔ ذرائع ابلاغ اسکول ہسپتال حتی کہ مساجد اور قبرستانوں تک جانے کی اجازت نہیں تھی۔
باجوڑ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ کوئی بھی بندہ آزاد کشمیر یا پاکستان سے مقبوضہ کشمیر میں اپنے بہن بھائیوں کی مدد کے لیے نہیں جائے گا۔
 عمران خان نے عملی طور پر  پہلے سال  مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر آدھا گھنٹہ اور اس سے اگلے سال ایک منٹ کی خاموشی سے کھڑا ہوا، عمران خان کشمیریوں سے وعدے تو بڑے کیے اور کشمیریوں کو یہ کہا کہ میں دنیا میں آپ کا سفیر ہوں لیکن جب انڈین جاسوس کلبھوشن کے لیے عمران خان کی حکومت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت کے لئے درخواست دائر کی تو لوگوں نے کہا کہ عمران خان کشمیر کا سفیر نہیں ہے بلکہ کلبھوشن کا وکیل ہے۔ بات اس سے بھی آگے بڑھتی گئی کہ 13جولائی 2020 میں یوم سیاہ کشمیر کے دن ہیں عمران خان نے نے انڈیا کو افغانستان تجارت کے لیے واہگہ بارڈر کھول کر دیا۔

 اب تک عمران خان 5 انڈین جاسوس رہا کرکے انڈین فورسز کے حوالے کر چکا ہے اس کے برعکس کشمیری مجاہدین کو جیلوں میں بند کر دیا اور جتنی بھی تحریکیں مقبوضہ کشمیر کے لیے کام کرتی تھی ان سب کو کالعدم قرار دے کر ان میں کام کرنے والے لوگوں پر مقدمات قائم کرکے جیلوں میں بند کر دیا۔ باتیں تو عمران خان نے بڑی کیں لیکن عملی طور پر کام مودی کی مرضی اور منشا کے مطابق کیے۔

آزاد کشمیر الیکشن میں پاکستان میں 12 مہاجرین کے حلقے ہیں، جن میں 6 ویلی سے تعلق والے  کشمیر اور 6 جموں و دیگر پر مشتمل ہیں، ان میں وہی پارٹی کامیاب ہوتی ہے جو کہ ان حلقوں پر حکمران ہوتے ہیں، جس طرح کراچی سے 2 ممبر اسمبلی ایم کیو ایم سے منتخب ہوتے ہیں، تقریباً 10 حلقے پنجاب سے ہیں، جہاں پی ٹی آئی حکمران ہے مگر ضمنی الیکشن کے نتائج دیکھیں تو مسلم لیگ (ن)مضبوط پوزیشن میں ہے۔

پی ٹی آئی کے ٹکٹ عمران خان وزیراعظم کے دستخط سے جاری ہوئے جو کہ پارٹی کے سربراہ ہیں۔ اس طرح بلاول بھٹو اور شہباز شریف نے اپنی جماعتوں کے ٹکٹ جاری کئے جو کہ مذکورہ جماعتوں کے پارلیمانی بورڈز کی منظوری/سفارشات سے ہوئے۔

 پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف آزاد کشمیر میں حکومت بنائے گی لیکن  پی ٹی آئی آزاد کشمیر اندرونی خلفشار  کا شکار ہے، ایک جانب 20 سالہ جدوجہد کے حامل نوجوان پی ٹی آئی کا ہراول دستہ ہیں، دوسری جانب سال ہا سال ایوان اقتدار کے مزے  حاصل کرنے والے عین الیکشن کے موقعے پر پی ٹی آئی کا مفلر پہن کرکے کے سب سے بڑے ’’تبدیلی کا نشان‘‘ بن گئے۔ میر پور سما ہنی سے ایسے لوگ شامل ہوئے جو کہ 5 سال اقتدار میں رہے اور پی ٹی آئی کے لیڈروں کو گالیاں دیتے ہیں۔ آج وہ پی ٹی آئی کے درینہ کارکنوں کے لیڈر بن گئے۔

صرف گذشتہ 2017 آزاد کشمیر الیکشن میں جو پی ٹی آئی کے ساتھ ان کو تو کم از کم عزت ،وقار اور احترام دیں۔ ایک ایک حلقے میں دیکھیں تو ہر جانب ’’پیرا شوٹر‘‘ کی آمد ہے۔

اصل مقابلہ پی ٹی آئی بمقابلہ پی ٹی آئی ہے۔ سردار تنویر ال میڈیا کے لوگ سارا دن بیرسٹر سلطان کی دیگر جماعتوں میں شمولیت کی اطلاع دے رہے ہوتے ہیں۔ بیرسٹر گروپ سردار تنویر الیاس کے ذریعے شامل ہونے والوں کے ٹکٹ واپسی کی پیچ اپ کرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی مرتضٰی گیلانی کے تھپڑوں کی صدا گونجتی ہے، کئی وفاقی وزراء کے فرنٹ مینوں کے قصے، کئی قیمتی تحائف اور اپارٹمنٹ کی بات ہوتی ہے۔

ایوان وزیراعظم ہائوس بنی گالا میں ایسے لوگوں کو عمران خان صاحب کے ذریعے گلے میں پی ٹی آئی کے مفلر ڈالے جاتے ہیں، جو کہ دیگر جماعتوں کے ساتھ قرآن پر عہد وفا کرتے ہیں اور آج توڑتے ہیں، یا پھر آزاد کشمیر میں پانچ سال سے پی ٹی آئی اور اس کے قائدین کو گالیاں دیتے نظر آئے۔
ایسے حالات میں پندرہ یا پھر بیس سال سے ظلم، استبدار کا مقابلہ کرنے والے پی ٹی آئی ٹائیگرز کہاں کھڑے ہیں؟
ان کے جذبات کیا ہیں؟۔

پی ٹی آئی کی رہی سہی کسر  وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور نے پوری کر دی جو کھلم کھلا دوسری پارٹیوں پر غداری کے فتوے اور کشمیریوں پر حرضاسرائی اور لوگوں کو پیسے میں تولتے ہوئے نظر آئے اس پر کشمیری مشتل ہوئے اور ان کو جوتے بھی مارے خ۔

آزاد کشمیر الیکشن مسلم لیگ ن کی کمپین مریم نواز شریف کر رہی ہیں ان کو کشمیر میں بہت پسند بھی کیا جارہا ہے اس کے برعکس پی ٹی آئی اس حوالے سے زیادہ دباؤ میں ہے۔ پی ٹی آئی میں پیرا شوٹرز کی تعداد میں بے انتہا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ وہاں کے امیر زادے اوورسیز کشمیری، ڈالرز، پونڈز اور ریالوں کے تھلیوں کے ساتھ آزاد کشمیر  پہنچ چکے ہیں اور ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد انتخاب لڑنے کا اعلان کر رہے ہیں۔

 آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی نہایت کمزور پوزیشن میں باہمی انتشار کا شکار نظر آتی ہے مگر اس وقت تک تحریک انصاف کی صفوں میں وہ لوگ شامل نہیں ہوئے۔ جو کسی نہ کسی لحاظ سے انتخابی مہم چلا کر کچھ اپنی مدد سے اور کچھ اسلام آباد کی مدد سے نشستیں حاصل کر سکیں۔ اس کے لئے دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے اور ان لوگوں کو جو ہمیشہ وقت آنے پر ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرکے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر دوسری جانب چلے جاتے ہیں کیا اس مرتبہ بھی ایسے لوگوں سے استفادہ کیا جائے گا کہ نہیں۔

 اس کا فیصلہ کچھ دنوں تک ہو جائے گا دوسری جانب ریاست کے اندر پاکستان تحریک انصاف اس وقت دو نمایاں دھڑوں میںبٹی نظر آرہی ہے۔ ایک گروپ کو سابق وزیراعظم آزاد کشمیر اور تحریک انصاف آزاد کشمیر کے صدر سلطان محمود چوہدری لیڈ کر رہے ہیں دوسرے گروپ کو وزیراعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی برائے تجارت سردار تنویر الیاس جن کا تعلق آزادکشمیر کے ضلع پونچھ سے ہے وہ لیڈ کر رہے ہیں۔ سلطان محمود چوہدری جو کہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں، ان کو پارٹی میں شامل کرکے تحریک انصاف پھولی نہیں سما رہی لیکن چوہدری صاحب کی تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے اپنی دولت وہیں خرچ کی ہے جہاں سے انہوں نے دوگنا منافع کمایا ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں