ایک مس کال یا کال کا سوال

0
149

تحریر: ولید رمضان

گزشتہ 10 سال سے سُن سُن کر کان تھک گئے تھے کہ جب میں اقتدار میں آئوں گا، تو دنیا اوپر سے نیچے بلکہ نیچے سے اوپر کردوں گا، ہر طرف افراتفری مچادوں گا، گہما گہمی پھیلادوں گا، پاسپورٹ کی عزت ہوگی یہ نوازشریف تو کچھ نہ کرسکا نوازشریف سے چینی صدر کا کوئی بھی دورہ شیڈول نہیں تھا بلکہ سب جھوٹ ہے۔ پھر دنیا نے دیکھا چینی صدر پوری شان سے پاکستان آئے اور سی پیک منصوبے کا اعلان عملی شکل اختیار کرگیا۔

 دوسری طرف خان کنٹینر پر چڑھ چڑھ کہتے رہے کہ جناب نوازشریف مودی کا یار ہے غدار ہے، نوازشریف کو اوباما بھی پسند نہیں کرتا، نوازشریف کو انگلش نہیں آتی، نوازشریف امریکہ کا غلام ہے پھر وقت گزرتا چلا گیا دنیا نے دیکھا نواز شریف کے سامنے مودی نے سر جھکایا، پھر اردگان نے بھی مانا، اوباما نے بھی ملاقات کے لیے بلایا۔ چائنہ مسلسل بلاتا بھی رہا اور وہ خود بھی آتا رہا وقت گزرتا گیا نوازشریف منصوبے پر منصوبے کا افتتاح کرتا گیا۔ خان صاحب کی بے چینی میں اضافہ ہوتا چلا گیا، وقت کی رفتار خان صاحب کو دن بدن پریشان حال کرتی گئی، پھر وقت آیا دنیا نے دیکھا خان نے نوازشریف کے بغض میں کیا کیا حرکتیں نہیں کیں۔ وقت بدلا خان صاحب حکومت میں آئے، آتے ہی خان صاحب کے قول اقوال بدل گئے۔ آپ کی بدنصیبی کا اندازہ لگائیں خان صاحب 3 سال ہوگئے، حکومت میں ایک بار بھی انہیں پوری دنیا سے کسی ملک نے دورے کی دعوت نہ دی۔

جہاں گئے کشکول توڑتے ہوئے خود گئے، جو بھی ملک دورے کے لیے آیا کشکول اس کے آگے کردیا اور گاڑی بھی خود چلانے پر بضد رہتے ہوئے عمل کرتے رہے۔ خان صاحب ایک ایماندار بہادر لیڈر ہیں اس بات کا ثبوت یہاں ہے کہ خان صاحب جن لوگوں کو نوازشریف کا یار غلام وغیرہ کہتے تھے آج اپنی ایمانداری سے انہی ملکوں اور انہی لوگوں کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کرنے کے خواہش مند ہیں۔ لیکن وقت کا ظلم خان صاحب اپنی زبان سے ادا کیے گئے الفاظ کے سامنے شرمندہ تو نہیں لیکن ان گھٹیا الفاظ اور زبان کی قیمت ضرور ادا کریں گے۔ سننے میں آیا ہے کہ خان صاحب اٹھتے بیٹھے سوتے جاگتے ایک ہی سوال پوچھتے ہیں کیا کسی کی ایک مس کال یا کال تو نہیں آئی اور جواب میں خان صاحب کو کہا جاتا ہے نہیں حضور ہماری بھی یہی التجا ہے کہ ایک مس کال یا کال کا سوال ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں