وِزیر قانون کی جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ایک اور درخواست، دو ججز پر بھی الزامات لگادیئے

0
180

اسلام آباد: سپریم جوڈیشل کونسل کا جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کوڑے دان میں پھینکنے کے بعد ایک بار پھر مستقبل میں وزیر اعظم کے خواب دیکھنے والے اسٹیبلشمنٹ کے کارندے وِزیر قانون فروغ نسیم نے جسٹس قاضی فائز عیسی سمیت دو ججز پر بھی الزامات لگاتے ہوئے ایک اور 19 صفحات پر مشتمل درخواست سپریم کورٹ رجسٹرار آفس میں جمع کرادی۔

پاکستان میں حالیہ عرصے میں اعلیٰ عدلیہ اور ججز پر حکومتی عہدیداروں کی جانب سے لفظی حملے اور الزامات لگائے جارہے ہیں۔ کبھی کوئی وفاقی وزیرپریس کانفرنس میں اعلیٰ عدلیہ کے خلاف بیانات دیتا دکھائی دیتا ہے تو کبھی سوشل میڈیا ٹرولز کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔

حال ہی میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس دوبارہ سننے کے لیے ایک درخواست دی جس میں قابل اصلاح کی اصطلاح متعارف کرائی گئی۔

رجسٹرار سپریم کورٹ نے اس درخواست کو اعتراضات لگا کر واپس کر دیا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کی طرف سے وفاقی حکومت کی اپیل پر جو اعتراضات لگائے گئے ان میں بنیادی اعتراض عدلیہ کے ججز کے لیے تضحیک آمیز الفاظ کا چناؤ تھا۔

حکومت وقت نے رجسٹرار سپریم کورٹ کے اعتراضات کے خلاف اپیل دائر کی ہے جس میں ایک مرتبہ پھر اعلیٰ عدلیہ کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے۔

رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف حکومتی اپیل میں کچھ اخباری کالموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نو مئی کو دو اخبارات میں کالم شائع ہوا جس میں کہا گیا سپریم کورٹ کے دو جج صاحبان نے چیف جسٹس آف پاکستان کو تحریری درخواست دی جس میں انھوں نے کہا کہ انھیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس کے لارجر بنچ کا حصہ بنایا جائے۔

حکومتی اپیل میں موقف اختیار کیا گیا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ایک خط کے زریعے اس معلومات کی تصدیق کیلئے تحریری درخواست دی لیکن آج تک اس کالم میں دی گئی معلومات کی نفی نہیں کی گئی۔ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ ایسے میں تعصب کے تاثر کو تقویت ملتی ہے۔

صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ وفاقی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس کی عدالتی کارروائی کو بھی ہدف تنقید بنایا اور کہا عام طور پر نظر ثانی کیس کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے، نظر ثانی کیس میں صرف ریکارڈ پر غلطی کا جائزہ لیا جاتا ہے، نظر ثانی کیس میں ازسرنو دلائل دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

وفاقی حکومت کا یہ موقف بھی ہے کہ سپریم کورٹ کا جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ اور ان کے بچوں کا معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کا فیصلہ سات جج صاحبان نے دیا، تین جج صاحبان نے اختلاف کیا تھا جبکہ نظر ثانی کیس میں چھ جج صاحبان نے اکثریتی فیصلہ دیتے ہوئے معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کا فیصلہ ختم کیا چار جج صاحبان نے اختلاف کیا،سات جج صاحبان کا فیصلہ اب بھی برقرا رہے۔

خیال رہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے ٹیکس کا معاملہ ایف بی آر کے سپرد کرنے کیلئے جو سات جج صاحبان اکثریتی فیصلے میں شامل تھے ان میں سے جسٹس منظور احمد ملک (ریٹائرڈ) اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے نظر ثانی کیس میں نے اپنے فیصلے کو تبدیل کیا۔

وفاقی حکومت نے یہ استدعا کی ہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ کے اعتراضات ختم کیے جائیں اور قابل اصلاح اپیل کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

وفاقی حکومت نے انڈیا کی عدالتوں کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ ازخود نوٹس کے اختیار کے تحت قابل اصلاح اپیل کو سن سکتی ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں