فوکو شیما ایٹمی ری ایکٹر کی تابکاری سے متاثرہ زہریلا پانی سمندر میں چھوڑے جانے کے خلاف احتجاجی والک

0
99

کراچی: دنیا میں احتجاج کے بعد کراچی پریس کلب پر طلباء اور سول سوسائٹی نے جاپانی حکومت کی ٹوکیو پاور کمپنی (ٹیپکو) کے فوکوشیما ایٹمی ری ایکٹر کی تابکاری سے متاثرہ زہریلا پانی سمندر میں چھوڑے جانے کے ممکنہ فیصلے کے خلاف احتجاجی والک کی۔ ریلی کے شرکاء  بینرز اٹھائے ہوئے تھے جن پر جاپانی فیصلے خلاف اور آبی حیات کے تحفظ کے حوالے سے نعرے درج تھے۔

 والک میں سندھ مدرستہ السلام کے ریسرچ اسکالر ڈاکٹرعدنان عالم اور کراچی یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف انوائرمینٹل اسٹڈیز کے ریسرچ اسکالر ڈاکٹر عامر عالمگیر، ورٹیکس ایچ ایس ای کے ڈائریکٹر سید حسان حبیب، انسانی حقوق کے تحفظ کی متحرک کارکن سحر خان سمیت طلباء و طالبات اور آبی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے مختلف افراد نے شرکت کی۔

والک کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عامر عالمگیر نے کہا کہ جاپان کے اس ممکنہ فیصلے سے سب سے زیادہ نقصان ماہیگیروں کو پہنچے گا کیونکہ دنیا بھر کے ماہیگیر اپنا معاش سمندر میں تلاش کرتے ہیں۔ فوکوشیما ایٹمی ری ایکٹر کی تابکاری سے متاثرہ زہریلا پانی سمندر میں پھینکنے سے سمندری حیات کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ جاپان کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیئے۔ اگر جاپان نے ایسا قدم اٹھایا تو کئی سالوں تک اس کے اثرات مائل نہ ہو سکیں گے۔ ہمیں وقت سے پہلے جاگنے اور اس سے متعلق آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔

سمندری ماحولیات کے ریسرچ اسکالر ڈاکٹرعدنان عالم نے کہا کہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی حقوق کا علمبردار ملک جاپان، یہ خطرناک کھیل ہرگز نہ کھیلے۔ ہم میڈیا کے توسط سے حکومتِ جاپان کو یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ جب مسئلے کا متبادل حل موجود ہے تو جاپان دنیا بھر کے سمندروں میں بسنے والی مخلوق کی زندگیاں داؤ پر نہ لگائے۔ ٹاکسک ریز ٹی ٹو او، پانچ سو اولمپک سوئمنگ پول جتنا پانی 2022 میں جاپان سمندر میں پھینکنا چاہتا ہے جو سمندری مخلوق پیڑ پودوں سے لے کر آبی حیات میں کینسر اور افزائش نسل کو شدید متاثر کرے گی کیونکہ اس ریڈیو ایکٹو کی ہاف سائیکل بارہ سال آٹھ مہینے ہے۔ یہ پانی جو بھی استعمال کرے گا وہ کینسر جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہو جائے گا۔ اُن میں دماغی مسائل اور ان کو جسمانی طور پر مفلوج کر دے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سائنسدانوں کے مطابق اگر کم مقدار میں بھی ٹریٹیئمم سے متاثرہ پانی کو ایٹمی پلانٹ کے قریبی پانیوں میں چھوڑا گیا تو اس علاقے میں موجود مچھلی کی صنعت تباہ ہوکر رہ جائے گی اور اس کے اثرات دیگر ممالک تک پھیل سکتے ہیں۔ 2011 میں آنے والے زلزلے کے بعد سے جاپان کے اس علاقے میں مچھلی کی صنعت ابھی تک بحران سے نہیں نکل سکی اور لوگ ابھی تک فوکوشیما کے علاقے سے آنے والی مچھلی خریدنے سے ہچکچاتے ہیں۔

سن 2011 میں جاپان میں آئے زلزلے اور سونامی کے بعد فوکوشیما کے جوہری پلانٹ کے سانحے سے ہزاروں لوگ متاثر ہوئے تھے۔ گزشتہ چند سالوں میں وہاں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ابتدائی طور پر زلزلے اور سونامی میں ہلاک ہونے والوں سے بھی کہیں زيادہ ہے۔ دوسری جانب ٹیپکو حکام کے مطابق سال دو ہزار بائیس (2022) تک ایٹمی پلانٹ کے تمام اسٹوریج ٹینکس مکمل بھر جائیں گے جس کے بعد اس ٹریٹڈ پانی کو سمندر میں چھوڑا جائے گا۔

عالمی ماہرین کہتے ہیں کہ جاپان نے اس نتیجے پر پہنچنے سے پہلے بہت سی تجاویز پر غور کیا۔ جس میں نئے اسٹوریج ٹینکوں کی تعمیر، کسی اور جگہ ٹینکس کی تعمیر، ایٹمی فضلے کو زمین بُرد کرنا، یا ایٹمی فُضلے کی صفائی کے بعد اسے سمندر بُرد کرنا، یا اسے بھاپ کی صورت فضاء میں خارج کردینا وغیرہ شامل تھا۔ لیکن بالآخر انہوں نے سب سے سستا طریقہ اختیار کیا جسے جاپانی حکومت سب سے بہترین حل قرار دے رہی ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ٹیپکو کی نااہلی اور نیوکلئیر مواد کی حفاظت سے غفلت کی بنیاد پر جاپان کی نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے عارضی معطلی کی سزا سنائی گئی تھی۔ سال 2011 میں جاپانی حکومت نے خود ہی فوکوشیما میں جانوروں کے گوشت میں تابکاری کے اثرات کے خدشات کے بعد علاقے سے ہر قسم کے گوشت کی ترسیل پر پابندی عائد کر دی تھی۔

کراچی پریس کلب پرمظاہرے میں شریک افراد کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے بعد جاپانی حکومت ایک مرتبہ پھر فوکوشیما کے لوگوں کو خطرے میں دھکیل رہی ہے۔ وہ ایٹمی فُضلے کے خطرات کو نظر انداز کررہے ہیں اور سمندر کو آلودہ کرنے جارہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی اس معاملے پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ہمیں حکومت جاپان کے اس فیصلے پر خدشات ہیں جبکہ سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ پانی میں ٹریٹئیم کے آئسو ٹوپس دیگر مولیکولز سے مل کر پودوں انسانوں اور دیگر سمندری جانداروں کے سمندری جانداروں کے لئے شدید خطرات کا باعث بن سکتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں