مشاہد اللہ اس نظام کا سیاسی مزدور تھا

0
57

تحریر: اجمل ملک ایڈیٹر نوشتئہ دیوار

سینیٹر مشاہد اللہ دنیا سے چلے گئے اللہ تعالی ان کی مغفیرت فرمائے۔ وہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے سیاستدان تھے جنہوں نے اپنی جرات اور محنت سے اشرافیہ کے اس کھیل میں اپنے لئے جگہ بنائی۔

 ان کا خاندان کراچی کے علاقے ماڈل کالونی میں آباد تھا، مشاہداللہ نے بہت تنگدستی کا وقت بھی گزارا۔ ایک وقت میں مشاہداللہ میرے گھر کے سامنے والی گلی میں باجوہ صاحب نامی ایک شخص کے کرائے دار تھے اور کئی دفعہ ان کے پاس مکان کا کرایہ ادا کرنے کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے۔ ان کا تعلق ایک پڑھے لکھے خاندان سے تھا ان کی والدہ جماعت اسلامی کی رکن تھیں۔ یہ پی آئی اے میں ٹریفک سپروائزر بھرتی ہوئے تھے جہاں انہوں نے جماعت اسلامی کی طرف سے یونین سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ ان کی سحر انگیز شخصیت اور دلیری کی وجہ سے پی آئی اے میں پیاسی یونین کو کامیابی حاصل ہوئی جہاں عرصے سے ائیر ویس یونین جیت رہی تھی لیکن بعد میں مشاہداللہ کا جماعت اسلامی سے اختلاف ہو گیا اور انہوں نے پاکستان اسٹیل ملز میں پیاسی مشاہداللہ گروپ کے نام سے رجسٹرڈ کروالی۔ پی آئی اے میں یونین سرگرمیاں بحال ہونے کے بعد نواز شریف کی حمایت میں وہاں ائیر لیگ کے نام سے یونین بنالی۔ مخالفین مشاہداللہ پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے پی آئی اے میں اپنے چار بھائی بھرتی کروائے یہ الزام غلط ہے۔ مشاہداللہ نے کسی ایک کو بھی بھرتی نہیں کروایا وہ میرٹ پر آئے یا پھر جماعت اسلامی نے ان کو بھرتی کروانے میں مدد کی اب تو ان کے سارے بھائی ریٹائرڈ بھی ہوچکے ہیں۔

مشاھداللہ خان نے ہر قدم پر نواز شریف کا ساتھ دیا اور کراچی میں ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اس وقت کی طاقتور ایم کیو ایم کا سامنا کیا۔ مشاہداللہ انتہائی نڈر ہونے کے ساتھ ساتھ علم و شعور بھی رکھتے تھے اس لئے کبھی بے تکی بات نہیں کرتے تھے۔ ایک دفعہ حسن نثار کی شامت آئی ہوئی تھی وہ ایک ٹی وی پروگرام میں مشاہداللہ سے الجھ گیا انہوں نے حسن نثار کو ایسی سنائیں کہ بیچارے کیلئے جان چھڑوانا مشکل ہوگیا۔ مشاہداللہ ہمارا اخبار باقائدگی سے پڑھتے تھے اور حلالے کے خلاف ہماری جدوجہد  کو بہت پسند کرتے تھے۔ اپنے ایک پیغام میں کہا کہ قوالی سن کر مسلمان ہونے والوں نے حلالہ کی لعنت سے اسلام کا چہرہ خراب کیا ہے۔ ان کی ساری زندگی جدوجہد کرتے ہوئے گزری آخری دنوں میں وہ سخت بیمار تھے اور مجھے بتاتے تھے کہ میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے لیکن وہ شخص جانتا تھا کہ میں نہ تو کوئی وڈیرہ ہوں نہ ہی کوئی جاگیردار ہوں جس کا اپنا کوئی آبائی حلقہ ہو اسے معلوم تھا کہ وہ اس نظام میں ایک “سیاسی مزدور” کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر اس نے اپنی مزدوری میں کوئی سستی دکھائی تو اشرافیہ کا یہ سنگدل نظام اسے باہر پھینک دے گا اسی لئے وہ بیماری کے باوجود اپنی پارٹی کا دفاع کرنے سینیٹ میں آتے رہے حتی کہ اس نے اپنی جان دے دی۔

ایف آئی اے نے مشاہداللہ کے بینک اکائونٹ بھی منجمند کر رکھے ہیں ہماری متعلقہ لوگوں سے درخواست ہے کہ ان کے منجمند اکائونٹ بحال کر دیئے جائیں تاکہ ان کے بچوں کو اپنے حق کیلئے در در کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں کیونکہ نواز شریف نے تو اپنے محسن ضیاء الحق کی اولاد کے ساتھ وفا نہ کی تو مشاہداللہ بیچارہ کس گنتی میں ہے۔

آج پاکستان کی بہت سی جماعتوں میں مشاہداللہ جیسے
 “سیاسی مزدور” کام کر رہے ہیں ان میں سے ایک نہال ہاشمی بھی ہیں جنہوں نے اسٹبلشمنٹ کے خلاف سخت بیان دینے پر مشکلات کا سامنا کیا اور بیچارے جب نواز شریف سے ملنے لندن پہنچے تو اتفاق سے ان دنوں نواز شریف اسٹبلشمنٹ کو راضی کرنے کیلئے مختلف جتن کر رہے تھے۔ لہذا نواز شریف نے نہال ہاشمی کی بے عزتی کی اور پھر اسے قربانی کا بکرا بنا کر اس کی وڈیو وائرل کرکے اسٹبلشمنٹ کو یہ پیغام بجھوایا کہ دیکھو اسٹبلشمنٹ کے خلاف زبان کھولنے والے کے ساتھ میں کیسا سلوک کرتا ہوں لیکن شائد اس دفعہ اسٹبلشمنٹ نواز شریف کے ساتھ صلح کرنے کے موڈ میں بالکل بھی نہیں ہے۔ نواز شریف کا یہ حربہ کارگر ثابت نہ ہوا اس واقعے کے بعد میں نے نہال ہاشمی کو میسج کیا کہ سر جی چھوڑیں ان لوگوں کو مڈل کلاس کے لوگوں کو اکٹھا کرکے کوئی حقیقی جمہوریت کیلیئے جدوجہد کرتے ہیں۔ یہ پیغام مڈل کلاس کے ان تمام مخلص  “سیاسی مزدوروں” کیلئے ہے جو مختلف پارٹیوں میں مزدوری کر رہے ہیں کہ آئو اور اس ملک کی سیاست پر قابض اشرافیہ سے جان چھڑوانے کیلئے کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کرو ورنہ تم اسی طرح جدوجہد کرتے ہوئے دنیا سے چلے جائو گے۔ نہ نظام بدلے گا نہ غریب کی حالت بدلے گی بس اشرافیہ کے بینک اکاونٹ میں دولت بڑھتی رہے گی وہ بھی غیر ممالک میں جس کا اس ملک کی عوام اور حکومت  کو کوئی فائدہ بھی نہیں ہوگا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں