اٹھارہویں آئینی ترمیم پاکستان کی تاریخ میں خاموش انقلاب کی بنیاد ہے، میاں افتخار حسین

0
28

اسلام آباد: عوامی نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ اٹھارہویں آئین ترمیم پاکستان کی  تاریخ میں خاموش انقلاب کی بنیاد ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے وفاق سے صوبوں کو اختیارکی منتقلی کیلئے بہت جدوجہد کی ہے۔ اے این پی کی اگلی منزل صوبوں میں مکمل ضلعی خودمختاری ہے۔

اسلام آباد میں مقامی حکومتوں کے موضوع پر نیشنل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین نے کہا کہ اراکین پارلیمان کو وفاداریوں کے عوض ترقیاتی فنڈز کے اجراء کا عمل ضیاء الحق کی آمریت کے دور میں شروع ہوااور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ ایسے عمل سے عوام کے ووٹوں سے منتخب نمائندے پیسوں کے ریل پیل میں مشعول ہوگئے اور ایسے لوگ اقتدار میں آتے رہے جو پاکستان کے آئین کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔

 انہوں نے کہا کہ اے این پی کی خواہش تھی کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات ہوں تاکہ اختیارات کو بلدیاتی نمائندوں کو منتقل کیا جاسکے لیکن صوبے میں امن و امان کی صورتحال کی بناء پر ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ اے این پی سمجھتی ہے کہ جب تک اختیارات کی نچھلی سطح پر منتقلی کو یقینی نہیں بنایا جائے گا ملک مضبوط نہیں ہوگا اور ترقی و خوشحالی ایک خواب رہے گا۔ بلدیاتی نظام کو مضبوط کرکے عوام کو حقیقی معنوں میں حکومت میں شریک کرنا اے این پی کے منشور کا حصہ ہے۔ آج اپوزيشن کی ساری سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات جلد ازجلد منعقد کرانے کے حق میں ہیں۔ موجودہ حکومت عوام کے سامنے بلدیاتی انتخابات کروانے کا ڈھونگ رچاتی ہے لیکن حقیقت میں بلدیاتی انتخابات کروانا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ موجودہ حکومت کسی طور یہ نہیں چاہے گی کہ اختیار عوام کومنتقل ہو۔ اس روش کو بدلنا ہوگا۔ اے این پی صوبائی خودمختاری کو مزید مضبوط کرنا چاہتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اختیارات کو صوبوں سے اضلاع، تحصیلوں اور یونین کونسل تک منتقلی کو یقینی بنایا جائے اور عوام کو فیصلہ سازی میں شریک کر کے گھر کی دہلیز پر انکے مسائل کو حل کیا جائے۔

 میاں افتخار حسین  نے کہا کہ اے این پی پارلیمان کی بالادستی کا احترام کرتی ہے، لیکن موجودہ حکومت میں پارلیمان کے ہوتے ہوئے بھی آرڈیننس جاری ہورہے ہیں۔ پارلیمان کو نظر انداز کرکے چور دروازوں سے قانون سازی کرنا پارلیمان کی تضحیک ہے۔ جب تک عوام کو فیصلوں میں شریک نہیں کیا جائےگااور انکو حق حکمرانی نہیں دیا جائےملک مضبوط نہیں ہوگا۔عوام کو فیصلہ سازی میں شریک کرکے صوبائی خودمختاری اورجمہوریت مزید مضبوط ہوگی۔ انہوں  نے مزید کہا کہ ترقیاتی کام کرنا متعلقہ سرکاری محکموں کی ذمہ داری ہے۔مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کا اصل کام قانون سازی کرنا ہے ۔مختلف ادوار میں بلدیاتی نظام میں ایک سازش کے تحت غیر سیاسی اور غیر جمہوری لوگوں کو لایا گیا۔ ایسے عناصر کی پشت پناہی ان لوگوں  نے کی جوسیاسی جمہوری قوتوں کے خلاف ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں