اسلام آباد لڑکی ہراساں کیس، کے اصل حقائق اور موجودہ صورتحال پر تحقیقاتی رپورٹ

0
118

اسلام آباد (احسان شوکت) افواہوں اور جھوٹی خبروں پر کان مت دھریں۔ تاحال کسی مزم کی ضمانت نہیں ہوئی بلکہ وہ 12 جولائی تک جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے پاس ہیں جبکہ متاثرہ نوجوان اسد اور لڑکی ایمان آپس میں شادی کرچکے ہیں۔

 یہ دلخراش واقعہ تقریباً سات مہینے پرانا ہے، لیکن اس کی ویڈیوز اب وائرل ہوئی ہیں۔ اسد نامی متاثرہ نوجوان پی ڈبلیو ڈی لوہی بھیر کا رہائشی ہے اور اس کا سیکٹر ایف الیون ٹو مین سروس روڈ پر پراپرٹی کا آفس ہے۔ اسد نے اپنی دوست لڑکی لاہور کی رہائشی ایمان کو اپنے پاس اسلام آباد بلایا تھا۔ اسد لڑکی ایمان کو اپنے ساتھ سیکٹر ای الیون ٹو میں واقع اپارٹمنٹس میگنیم ہائٹس کی چوتھی منزل پر فلیٹ نمبر417 میں لے گیا۔

یہاں سے کہانی میں ایک نیا موڑ آگیا۔ یہ فلیٹ اسد کے دوست حافظ عطاء الرحمن کے کزن محمد عثمان مرزا نے کرائے پر لیا ہوا تھا۔ متاثرہ نوجوان اسد نے اپنے دوست حافظ عطاء الرحمن سے فلیٹ کی چابی لی اور لڑکی ایمان کو اس فلیٹ میں لے آیا۔ اسد کے دوست حافظ عطاء الرحمن کا سیکٹر ایف الیون ٹو میں سلیکٹ پراپرٹی کے نام سے دفتر ہے۔

 کچھ دیر بعد اسلحہ سے لیس محمد عثمان مرزا، حافظ عطاء الرحمن، مدرس بٹ، محب بنگش اور فرحان شاہین وغیرہ اچانک فلیٹ میں داخل ہوئے اور ان سب نے گھناؤنا کھیل رچاتے ہوئے اسد اور لڑکی کو اسلحہ کی نوک پر ڈرا دھمکا کر تشدد کا نشانہ بنایا۔ لڑکی کے زبردستی کپڑے اتروائے، جنسی ہراساں اور نازیبا حرکات کرتے اور ویڈیوز بناتے رہے۔ یہ ویڈیوز تین دن پہلے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو پولیس حرکت میں آگئی اور اسلام آباد کے تھانہ گولڑہ شریف میں 6 جولائی کو سب انسپکٹر سید عاصم افتخار کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے 4 ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ ان کے 3 ساتھیوں کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

ملزمان میں محمد عثمان ابرار ولد محمد ابرار مکان نمبر 739، گلی نمبر 75، سیکٹر آئی ایٹ تھری اسلام آباد۔ حافظ عطاء الرحمان ولد بشیر احمد،بخیام ٹاؤن، ایچ 13اسلام آبا۔محب خان بنگش ولد ابراہیم خان، شمس آباد راولپنڈی۔مدارس بٹ ولد قیوم بٹ، آئی ٹین ون مین سروس روڈ۔فرحان شاہین اعوان ولد شمشیر شاہین اعوان، پنڈوریاں وغیرہ شامل ہیں۔

 اسلام آباد پولیس نے ویڈیو میں نظر آنے والا پستول بھی برآمد کر لیاہے جبکہ وزیراعظم عمران خان نے اس واقعہ پر سخت نوٹس لیا ہے۔ متاثرہ لڑکے اور لڑکی (میاں، بیوی) نے انصاف کے لئے جماعت اسلامی سے رجوع کیا ہے اور پولیس کو بھی بیانات ریکارڈ کرا دیئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ خوفزدہ تھے۔ اس لیے پہلے پولیس کو مطلع نہیں کیا۔ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔

جہاں تک ملزمان کی ضمانتوں کی افواہیں گردش کر رہی ہیں وہ بالکل جھوٹی اطلاعات ہیں۔ مرکزی ملزم محمد عثمان مرزا سمیت چاروں ملزمان کو آج 9 جولائی عدالت میں پیش کیا گیا تو عدالت نے انہیں چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔

ایک اور بات ملزم محمد عثمان مرزا کے ضمانت کے حوالے سے جو ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ وہ کلپ اس رنگ باز ملزم نے گرفتاری سے قبل ٹک ٹاک پر مشہوری اور رعب جھاڑنے کے لئے بنائے تھے۔

پانچواں ملزم بلال مروت سے گرفتار ہوچکا ہے جبکہ مرکزی ملزم عثمان مرزا سمیت 4 افراد پہلے سے گرفتار ہیں۔ ‏عثمان مرزا کو پھانسی کی سزا دینے کی دفعات کو مقدمہ کا حصہ بنا دیا گیا۔

‏وزیر اعظم عمران خان نے عثمان مرزا اور اس کے ساتھیوں کو نشان عبرت بنانے کا حکم دیا تھا اور ایک ماہ میں مقدمہ نمٹانے کی ہدایت کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں