کراچی: سینئر صحافی مطیع اللہ جان اغوا ہوئے یا لاپتہ ہوئے یا ان کو گرفتارکیا گیا ہے۔ ابھی تک یہ بحث بھی جاری ہے۔
سینئر صحافی مطیع اللّٰہ جان کی اہلیہ کے مطابق اُن کے شوہر کی گاڑی جی-6 اُن کے اسکول کے پاس کھڑی پائی گئی ہے۔ اہلیہ مطیع اللّٰہ جان کے مطابق اُنہیں بتایا گیا کہ اُن کے شوہرکو کچھ لوگ زبردستی اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
زرائع کے مطابق اسلام آباد میں دن دیہاڑے تین گاڑیوں میں تقریبا چھ مسلح افراد انہیں زبردستی ساتھ لے گئے ہیں اور ابھی تک کسی نے گرفتاری ظاہر نہیں کی ہے۔ اگر کسی نے اغوا کیا ہے تو ابھی تک تصدیق نہیں ہوسکی اور وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک ایمبولینس اور سرکاری گاڑی بھی مطیع اللہ جان کو لے جانے کے وقت موجود ہے۔
مطیع اللّٰہ جان کے بارے میں مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ تھانہ آبپارہ میں صحافی مطیع اللّٰہ جان کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ درج کرلی گئی ہے جبکہ مطیع اللّٰہ جان کے لاپتہ ہونے کے معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
سینئیرصحافی مطیع اللہ جان کے وکلاء کی جانب سے دائردرخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایکشن لیتے ہوئے صحافی مطیع اللہ جان کو بازیاب کروا کر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ شارٹ آرڈر میں کل تک مطیع اللہ جان کو پیش نہ کرنے کی صورت میں سیکرٹری داخلہ، چیف کمشنر اسلام آباد اور آئی جی کو ذاتی حیثیت میں عدالت پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
مطیع اللہ جان کی کل سپریم کورٹ میں توہین عدالت مقدمے کی پیشی بھی ہے اور پیشی سے پہلے ان کو اغوا کرنا کیا توہین عدالت نہیں ہے؟۔ اسی طرح کچھ ماہ قبل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈوکیٹ کو ایک کیس میں عدالت میں حاضری سے قبل غائب کردیا گیا تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکام جلد از جلد مطیع اللّٰہ جان کا پتا لگائیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ مطیع اللّٰہ جان کوصحافت کے باعث ماضی میں حملوں اور ہراساں کیے جانے کا سامنا رہا ہے۔
واضح رہے کہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بھی مطیع اللّٰہ جان کی فوری بازیابی کامطالبہ کیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر صحافی و سیاسی اور سماجی تنظیموں کا شدید رد عمل دیکھنے کو مل رہا ہے اور جس میں مطیع اللہ جان کو بازیاب کروا کر متعلقہ نامعلوم افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
یاد رہے ستمبر2017 میں بھی مطیع اللہ جان کی گاڑی پر حملہ کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ اسلام آباد میں بارہ کہو کے مقام پر پیش آیا تھا جب موٹر سائیکل پر سوار افراد نے مطیع اللہ کی گاڑی کی ونڈ سکرین پر اینٹ دے ماری تھی جس سے ونڈ سکرین پر دراڑیں پڑی تھیں۔ حملے کے وقت گاڑی میں مطیع اللہ جان کے بچے بھی ان کے ساتھ گاڑی میں موجود تھے۔