اسلام آباد: وزیرِ اعظم عمران خان کی زیر صدارت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے حوالے سے اجلاس ہوا۔
اجلاس میں وفاقی وزراء مخدوم خسرو بختیار، ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، محمد حماد اظہر، سید فخر امام، اسد عمر، مشیر ڈاکٹر عشرت حسین، معاونین خصوصی ندیم بابر، ڈاکٹر وقار مسعود، تابش گوہر، وزیرِ خوراک پنجاب عبدالعلیم خان و متعلقہ محکموں کے سیکرٹری صاحبان شریک۔ وزیرِ خزانہ پنجاب مخدوم ہاشم جوان بخت ا ور صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخواہ کے چیف سیکرٹری صاحبان نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔
وزیرِ اعظم کو ملک میں گندم کی پیداوار، کھپت اور ضروریات کو پورا کرنے کے حوالے سے حکمت عملی اور گندم اور آٹے کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
وزیرِ صنعت محمد حماد اظہر نے ملک میں چینی کی پیداوار اور قیمتوں کے حوالے سے وزیرِ اعظم کو بریف کیا۔
وزیرِ اعظم کی ہدایات کے مطابق خوردنی تیل، پٹرولیم مصنوعات و گیس کی قیمتوں میں ممکنہ حد تک کمی کو یقینی بنانے کے لئے مختلف تجاویز پر بھی غور کیا گیا۔
چیف سیکرٹری صاحبان نے صوبوں میں گندم کی ضروریات کو پورا کرنے خصوصاً ماہ رمضان میں عوام کو رمضان بازاروں و دیگر انتظامات کے ذریعے سستے آٹے کی فراہمی کے حوالے سے انتظامات کے حوالے سے بریفنگ دی۔
وزیرِ اعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آٹے، چینی جیسی بنیادی اشیاء کی مناسب قیمتوں پر فراہمی کو یقینی بنانا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ بنیادی اشیائے ضروریہ کے ضمن میں مستحق اور غریب افراد کو براہ راست سبسڈی کی فراہمی کے حوالے سے پروگرام تشکیل دیا جا رہا ہے جس سے نہ صرف حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سبسڈی براہ راست مستحق افراد کو میسر آئے گی بلکہ سبسڈی کے نظام کو شفاف اور موثر بنایا جا سکے گا۔
وزیرِ اعظم نے ہدایت کی کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آٹے جیسی بنیادی خوراک کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہو۔ گندم کی ضروریات کو پورا کرنے کے حوالے سے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے پیشگی انتظامات کو یقینی بنایا جائے۔
وزیرِ اعظم نے معاشی ٹیم کو ہدایت کی کہ خوردنی تیل، پٹرولیم مصنوعات اور دیگر اشیاء پر عائد ہر ٹیکس کا جائزہ لیا جائے تاکہ جہاں تک ممکن ہو ٹیکسوں کے بوجھ میں کمی لا کر عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ بالواسطہ ٹیکسوں کا سب سے زیادہ بوجھ غریب عوام پر پڑتا ہے لہذا اس بوجھ میں کمی لانے کے لئے آؤٹ آف باکس سلوشنز تجویز کیے جائیں تاکہ جہاں ریاستی آمدن متاثر نہ ہو وہاں غریب عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ سے بچایا جا سکے۔