کراچی (مدثر غفور) این آئی سی ایچ جناح اسپتال’ پاکستان میں بچوں کا سب سے بڑا اسپتال جس میں اندرون سندھ، پنجاب، خیبرپختونخواہ، بلوچستان اور ملک سے باہر افغانستان تک سے بچے علاج کروانے آتے ہیں۔ جناح اسپتال کراچی میں بھی سسٹم کی گوج سنائی دینے لگی اور ‘ہیلتھ سسٹم’ کے با اثر نچلے گریڈ کے ملازم ملک زریاب ٹوانہ کی جعلی ڈگری پر نوکری پھر ترقی ‘مقدمہ’ برخاستگی کے باوجود نوکری پر برقرار رہنما محمکہ صحت سندھ کیلئے چیلنج بن گیا۔
سندھ حکومت کے زیر انتظام کراچی کے سب سے بڑے سرکاری جناح اسپتال سے منسلک نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ (این ائی سی ایچ) میں بااثر ملازم ملک زریاب حیات ٹوانہ 2004 میں بطور اسٹیورڈ گریڈ 2 میں میٹرک کی جعلی کی ڈگری کی بنیاد پر بھرتی ہوا اور مختلف سیاسی جماعتوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہوا ترقی اور مالی فوائد حاصل کرتا رہا۔
جناح اسپتال زرائع کے مطابق مذکورہ بااثر ملازم زریاب ٹوانہ پہلے مسلم لیگ (ن) کے میڈیکل ونگ سندھ کا خود ساختہ صدر بنا اور پھر سال 2021 میں پیپلز پارٹی میڈیکل ونگ میں شامل ہوگیا، وقت کے ساتھ ساتھ ‘ہیلتھ سسٹم’ کا کارندہ بن گیا۔
ملک زریاب حیات ٹوانہ کے خلاف ہر سال محکمہ جاتی کاروائیاں اور غنڈہ گردی کا مقدمہ بھی درج ہوا لیکن اسپتال انتظامیہ اور محکمہ صحت سندھ اس کے بااثر ہونے کی وجہ سے اس کے سامنے بے بس رہی اور آج وہ گریڈ 11 کا افسر ہے۔
ملک زریاب کو 22 شوکاز نوٹس/ میموز ملے اور ایف آئی آر نمبر 185/2015 بھی درج ہوئی، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اور پولیس ڈیپارٹمنٹ کے اعلی آفیسروں نے جے آئی ٹی تشکیل دی جس کی ریکمنڈیشن کے مطابق ملک زریاب سرکاری نوکری کے قابل نہیں ہے۔
دستاویزی ثبوتوں کے مطابق مذکورہ ملازم ملک زریاب حیات ٹوانہ کی نہ صرف میٹرک کی ڈگری جعلی ثابت ہوئی بلکہ اس کا ڈومیسائل اور پی آر سی سرٹیفکیٹ بھی جعلی ثابت ہونے کے بعد اس کو منسوخ کرنے کا لیٹر بھی جاری کیا گیا۔ ملازم زریاب کو 2004 میں بطور اسٹیورڈ بھرتی کا لیٹر جاری کیا گیا۔ مگر اس کو اسی دن سرکاری نوکری سے برخاستگی کا لیٹر بھی جاری کر دیا گیا لیکن چند ماہ بعد ہی اس کو گریڈ 5 میں بطور ریسپشنسٹ کے اپائنٹمنٹ کا لیٹر جاری کیا گیا۔
اپائنمنٹ لیٹر کے چند ماہ بعد اسپتال کے ایک افسر سے بدتمیزی کے حوالے سے ایک میمو جاری کیا گیا اور تحریری معافی مانگنے کا کہا گیا پھر ایک برس بعد اسپتال میں غیر قانونی ہڑتال کروانے پر ایکسپلینیشن لیٹر جاری کیا گیا اور بعد میں تنبیہی لیٹر بھی جاری کیا گیا۔ اس کو 2007 میں بطور ریسیشنسٹ سے ڈائریکٹوریٹ آف سینٹرل ہیلتھ اسٹیبلشمنٹ کراچی کردیا گیا لیکن اس پر بھی عمل نہیں ہوا۔ 2009 میں سرکاری قواعد و ضوابط سے انحراف کرنے پر ایکسپلینیشن لیٹر جاری کیا گیا۔ 2013 میں اس کا تبادلہ دوبارہ این آئی سی ایچ میں کر دیا گیا۔ 2015 میں اس کو سرکاری نوکری سے معطل کر دیا گیا۔ 2017 میں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ سندھ کے ڈائریکٹر لیگل کی کمپلینٹ پر ادارے کا شو کاز نوٹس بھی جاری کیا گیا۔ زریاب ٹوانہ کو 2017 میں ہی ڈائریکٹر سید جمال رضا نے شو کاز نوٹس جاری کیا جبکہ 2019 میں ادارے کا میمو کہ وہ نیب میں پیش ہو کر اپنا بیان اور صفائی پیش کرے۔ 2019 میں ہی ایف آئی اے میں جاری انکوائری میں پیش ہونے کا میمو جاری کیا گیا۔
زریاب کے خلاف پولیس کے ڈی ایس پی کنور آصف سرفراز نے بھی انکوائری کرکے اس کے خلاف کاروائی کی سفارش کی۔ 19 مئی 2023 کو ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے سیکشن افیسر محمد لیاقت نے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ (این ائی سی ایچ) کو مراسلہ تحریر کیا کہ کراچی سیکنڈری بورڈ نے ملک زدیاب کی میٹرک کی سند بوگس قرار دی ہے۔ مذکورہ افسر نے ہی 8 جون 2023 کو کو دوبارہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو مراسلہ تحریر کیا کہ مجاز اتھارٹی نے زریاب کو ‘ہیلتھ سسٹم’ کا کارندہ ہونے کی وجہ سے سرکاری نوکری سے برطرف کرنے کے بجائے معطل کر دیا۔
دستاویز کے مطابق ملک زریاب ٹوانہ 9 جون 2004 میں اسٹیورڈ (بی پی ایس-7) کی عارضی طور پر خالی ہوئی سیٹ پر بھرتی ہوا جس کی قابلیت انٹرمیڈیٹ تھی اور مذکورہ شخص نے کراچی بورڈ کی انٹر کی ڈگری کے ایچ آئی/بی آئی ایس ای/ایچ ایس سی/1999 رول نمبر 47301 جمع کروائی اور اس دوران پرانا اسٹیورڈ کورٹ بحال ہوگیا، جس پر ملک زریاب کو 9 جولائی 2004 کو بطور (بی پی ایس-5) ریشپنسٹ بھرتی کیا گیا لیکن جب بھرتی کیا گیا تو ملک زریاب کی قابلیت میٹرک تھی اور اس نے کے ایچ آئی/بی آئی ایس ای/ایس ایس سی/1996 رول نمبر 495855 کی ڈگری جمع کروائی۔
محکمہ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نے ملک زریاب ٹوانہ کی سرکاری ملازمت کے کاغذات ویری فائی کروائے تو اس کی جمع کروائی گئی میٹرک کی سند بوگس/ جعلی نکلی، 20 جنوری 2023 کے لیٹر نمبر بی آئی ایس سی/ کے ایچ آئی/اگزام/ایم/ایس/113/2023 کے مطابق مذکورہ شخص کے میٹرک کی سند کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، جس پر ادارے نے محکمانہ کاروائی کرتے ہوئے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نے 8 جون کو لیٹر نمبر ایس او(ڈی ایم)4-2023/287 این آئی سی ایچ جاری کرتے ہوئے ملک زریاب کو معطل کردیا۔
ملک زریاب نے ایک اور میٹرک کی ڈگری بی آئی ایس سی/ ایس ایس سی/سائنس/2008 رول نمبر 529325 ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری اصلی میٹرک ڈگری ہے۔
جیسا کہ مذکورہ شخص نے سرکاری ملازمت 2004 میں حاصل کی اس وقت بھرتی کیلئے تعلیمی قابلیت میٹرل کی جعلی ڈگری جمع کروا کر سرکاری ملازمت حاصل اور 5 سال بعد مذکورہ شخص نے میٹرک سائنس کی ڈگری لی جو قابل قبول نہیں ہے۔
قانون کے مطابق جب کوئی شہری سرکاری ملازم بھرتی ہوتا ہے تو اس وقت کی قابلیت کے مطابق ڈگریز جمع ہوتی ہے اور بعد میں جمع کروائی گئی ڈگری کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔
اجنبی کے مطابق ملک زریاب نے اپنی سروس کے دوران کبھی ڈیوٹی نہیں کی اور جے پی ایم سی، این آئی سی ایچ اور این آئی سی وی ڈی ہر ڈائریکٹر کو سیاسی شیلٹر کے زریعے بلیک میل اور ہراساں کرتا رہا۔ اسپتال میں زبردستی ہڑتالیں کروانا، انتظامیہ کے خلاف اسٹاف کو استعمال کرنا، ملازمین کو سیاست ذدہ کرنا، انتظامیہ کے کام میں مداخلت کرنا اور اسپتال میں کرپشن کرکے پیسہ ‘اوپر’ پہنچا کر چلنا متاثر کیا ہے۔
مذکورہ شخص 19 سال سے جعلی ڈگری پر سرکاری نوکری کررہا ہے اور ادارے میں سینیٹیشن کا انچارج، ای ڈی ٹو پی آر او سمیت سرکاری گھر میں رہائش پذیر ہونے سے سرکاری خزانے کو ہر ماہ لاکھوں اور ہر سال کروڑوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔
اس حوالے سے ڈائریکٹر ڈاکٹر ناصر سڈل کا کہنا تھا کہ زریاب ابھی بھی معطل ہے مگر وہ حاضری لگانے ضرور آتا ہے اور اس کا کیس محکمہ صحت میں زیر التوا ہے۔ اسی حوالے سے زریاب سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی مگر اس کا فون سوئچڈ آف ملا۔
زرائع کے مطابق رواں سال 15 جولائی کو ادارے کی طرف سے ملک زریاب ٹوانہ کو سسپینشن آرڈر رسیو کروایا گیا لیکن اس کے باوجود ‘ ہیلتھ سسٹم’ کا کارندہ ہونے کے باعث ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے آفیسرز اور این آئی سی ایچ کے آفیسرز کی مدد سے تاحال سرکاری دفتر استعمال کررہا ہے اور گیٹ پاس بھی سائن کرواتا ہے۔
یاد رہے کہ وفاقی اسپتالوں کے ملازمین کی ڈگریوں اور اسناد کی تصدیق کا عمل سرد خانے کی نظر کردیا گیا۔ محکمہ صحت کے دعوع مطابق جعلی ڈگری اور اسناد کے حامل ملازمین کو فوری طور پر ملازمت سے برطرف کیا جائے گا۔