کراچی: سوئس بینکوں کے کلائنٹ کی فہرست دنیا کے محفوظ ترین رازوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ اکاؤنٹ کرہ ارض کے امیر ترین لوگوں کی شناخت چھپاتے ہیں اور اس حقیقت پر پردہ ڈالتے ہیں ان افراد نے اتنی دولت کیسے حاصل کی۔ اب، دنیا کے مشہور ترین بینک ‘کریڈٹ سوئس’ سے معلومات کا غیر معمولی افشا ہونا اس بات کو بے نقاب کر رہا ہے کہ کس طرح اس بینک نے سربراہان مملکت، انٹیلی جنس حکام، بدنام زمانہ کاروباری افراد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے کروڑوں ڈالر رکھے ہوئے ہیں۔
ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک باخبر لیکن نامعلوم شخص ایک نے جرمن اخبار ‘سڈینٹچے زی تنگ’ کو 18,000 سے زائد بینک کھاتوں کی تفصیل لیک کر دی جن میں مجموعی طور پر ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ رقم جمع ہے۔
اخبار نے یہ معلومات مزید تحقیق کے لئے ایک غیر منافع بخش صحافتی گروپ، آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ اور نیویارک ٹائمز سمیت دنیا بھر کی 46 دیگر خبر رساں تنظیموں کے ساتھ شیئر کر لیں۔ بینک یہ کھاتے 1940 سے لے کر 2010 کی دہائی تک کھولے گئے تھے لیکن یہ کھاتے بینک کے موجودہ لین دین کا حصہ نہیں ہیں۔
کریڈٹ سوئس کے اکاؤنٹس میں کروڑوں ڈالر رکھنے والے افراد میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم اور مصر کے سابق طاقتور آمر حسنی مبارک کے دو بیٹے بھی شامل ہیں۔ دیگر کھاتہ داروں میں ایک پاکستانی انٹیلی جنس چیف کے بیٹے بھی شامل تھے جنہوں نے 1980 کی دہائی میں افغانستان میں مجاہدین کو امریکہ اور دیگر ممالک سے اربوں ڈالر فراہم کرنے میں مدد کی تھی۔ طویل عرصے سے جاری بدعنوانی کے ایک اسکینڈل میں ملوث وینزویلا کے حکام کے نام بھی سامنے آرہے ہیں۔ ایک اکاؤنٹ ہولڈر وینزویلا کے سابق نائب وزیر برائے توانائی، نیرویس ولالوبوس تھے۔
کریڈٹ سوئس نے اسکینڈل کے باوجود 2011 میں ولالوبوس کے لیے ایک اکاؤنٹ کھولا۔ لیک ہونے والے بینک ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ 2013 میں بند کیے گئے اس اکاؤنٹ 10 ملین ڈالر رکھے گئے تھے۔ مسٹر ولالوبوس کے وکلا نے صحافیوں کے سوالات کا جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔ تاہم معلوم ہوا ہے کہ وینزویلا کی تیل کمپنی میں بدعنوانی کے ملزم افراد نے کریڈٹ سوئس میں 25 اکاؤنٹس کھول رکھے تھے جن میں کل ملا کر تقریباً 270 ملین ڈالر جمع تھے۔ یہ اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد بھی اکاؤنٹس کھلے رہے لیکن فرد جرم عائد ہونے کے بعد انہیں بند کر دیا گیا۔
معلوم ہوا ہے کہ کریڈٹ سوئس نے نہ صرف انتہائی دولت مند بلکہ ایسے لوگوں کے اکاؤنٹس بھی کھولے جن کا متنازع پس منظر دنیا بھر کے کسی بھی شخص کی دسترس میں تھا۔
سوئٹزرلینڈ کی اینٹی منی لانڈرنگ ایجنسی کے سابق سربراہ ڈینیل تھیلیسکلاف نے کہا ہے کہ سوئس بینکوں کو مجرمانہ سرگرمیوں سے منسلک رقم لینے پر طویل عرصے سے قانونی پابندیوں کا سامنا ہے۔ لیکن، انہوں نے کہا کہ قانون کو عام طور پر نافذ نہیں کیا گیا۔ بینک کی ترجمان، کینڈیس سن نے ایک بیان میں کہا کہ ‘کریڈٹ سوئس بینک کے مطلوبہ کاروباری طریقوں کے بارے میں الزامات اور قیاس آرائیوں کو سختی سے مسترد کرتی ہے۔’ انہوں نے کہا کہ افشا ہونے والے بیشتر اکاؤنٹس دہائیوں پرانے ہیں اور اس زمانے میں مالیاتی اداروں کے قوانین، طرز عمل اور توقعات آج سے بہت مختلف تھیں۔ محترمہ سن نے کہا کہ اگرچہ کریڈٹ سوئس مخصوص کلائنٹس پر تبصرہ نہیں کر سکتی، تاہم لیک ہونے والے ڈیٹا بیس میں شناخت ہونے والے بہت سے اکاؤنٹس پہلے ہی بند کیے جا چکے ہیں۔
کینڈیس سن نے کہا کہ ہم موجودہ اکاؤنٹس کے بارے میں مطمئن ہیں کہ انہیں کھولتے ہوئے مناسب مستعدی، جائزے اور دیگر انضباطی اقدامات کیے گئے، زیر التواء اکاؤنٹس کی بندش اس عمل کا حصہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ لیک ہونے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اردن کے شاہ عبداللہ دوم کریڈٹ سوئس کے گاہکوں میں سے ایک تھے۔ محترمہ سن نے مزید کہا کہ یہ لیک بینک اور سوئس مالیاتی مارکیٹ کو بدنام کرنے کی ایک مشترکہ کوشش کا حصہ معلوم ہوتا ہے، جس میں گزشتہ برسوں میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔
یہ لیک 2016 میں نام نہاد پانامہ پیپرز، 2017 میں پیراڈائز پیپرز اور گزشتہ 2020 سال پنڈورا پیپرز کے بعد سامنے آئی ہے۔ ان سب مواقع پر بینکوں، قانونی فرموں اور آف شور مالیاتی خدمات فراہم کرنے والوں کی خفیہ سرگرمیوں نیز جرائم کے الزامات کا سامنا کرنے والے مالدار لوگوں اور اداروں کو زیادہ تر ٹیکس جمع کرنے والوں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی کے بغیر بڑی بڑی رقم کی منتقلی کی اجازت کا انکشاف ہوا۔
نئے انکشافات سے سوئس بینکنگ انڈسٹری اور خاص طور پر کریڈٹ سوئس کی قانونی اور سیاسی جواب دہی میں تیزی آنے کا امکان ہے۔ کریڈٹ سوئس بینک پہلے ہی اپنے دو اعلیٰ عہدیداروں کی اچانک بے دخلی کے بحران سے دوچار ہے۔ بینکوں میں رازداری کے قوانین کے باعث سوئٹزرلینڈ طویل عرصے سے پیسہ چھپانے کے خواہشمند افراد کے لیے پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔ پچھلی دہائی میں، سوئٹزر لینڈ کے سب سے بڑے بینک۔ خاص طور پر کریڈٹ سوئس اور یو بی ایس۔ امریکہ اور دوسرے ممالک میں ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ اور دیگر جرائم کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے والے حکام کے نشانے پر ہیں۔
2014میں، کریڈٹ سوئس نے امریکیوں کو جھوٹے ٹیکس ریٹرن فائل کرنے میں مدد کرنے کی مجرمانہ سازش کرنے کا اعتراف کیا اور جرمانے کی مد میں کل 2.6 بلین ڈالر کی واپسی پر رضامندی ظاہر کی۔ تین سال بعد، بینک نے امریکی محکمہ انصاف کو 5.3 بلین ڈالر ادا کیے تاکہ رہن، سیکیورٹیز اور مارکیٹنگ کے بارے میں الزامات کا تصفیہ کیا جا سکے۔ گزشتہ برس اس بینک نے موزمبیق میں کک بیک اور رشوت ستانی کی اسکیم کی تحقیقات کو حل کرنے کے لیے امریکی اور برطانوی حکام کو 475 ملین ڈالر ادا کرنے پر اتفاق کیا۔ اور اس مہینے، سوئٹزرلینڈ میں ایک مقدمہ چل رہا ہے جس میں کریڈٹ سوئس پر الزام ہے کہ اس نے منشیات کے اسمگلروں کو بینک کے ذریعے لاکھوں یورو کی لانڈرنگ کی اجازت دی۔
محکمہ انصاف اور سینیٹ کی مالیاتی کمیٹی اس بات کا بھی جائزہ لے رہی ہے کہ آیا امریکی شہری بینک میں غیرعلانیہ اکاؤنٹس رکھتے ہیں۔ کریڈٹ سوئس کے کئی سابق ملازمین نے گزشتہ سال کے آخر میں وفاقی عدالت کو بتایا تھا کہ بینک نے 2014 مین اپنے جرائم کے اعتراف کے بعد بھی صارفین کے سینکڑوں ملین ڈالرز چھپانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایک سابق بینک اہلکار اور دیگر سابق ملازمین کے ایک وکیل کی جانب سے گزشتہ سال دائر کیا گیا مقدمہ اس وقت خارج کر دیا گیا جب محکمہ انصاف نے کہا کہ اس مقدمے کے باعث امریکی شہریوں کے سوئس بینک اکاؤنٹس کے بارے میں جاری گفت و شنید میں مداخلت ہو رہی ہے۔
میڈیا کنسورشیم نے تازہ ترین لیک کو ‘سوئس سیکرٹس’ کا نام دیا ہے۔ اس میں شامل 18,000 سے زیادہ بینک اکاؤنٹس میں سے، تقریباً 100 امریکی شہریوں کے اکاؤنٹس ہیں تاہم ان میں کوئی ایسی شخصیت شامل نہیں جو کسی عوامی عہدے پر فائز ہو۔ ایک اہم انکشاف یہ ہے کہ کریڈٹ سوئس نے بینک حکام کی جانب سے متعدد صارفین کی مشتبہ سرگرمیوں کی نشاندہی کے باوجود صارفین کے ساتھ کاروبار جاری رکھا۔ بینک نے زمبابوے کے ایک ایسے تاجر کے اکاؤنٹس بھی کھلے رکھے جن پر صدر رابرٹ موگابے کی حکومت سے تعلقات کے الزام میں امریکی اور یورپی حکام نے پابندیاں لگا رکھی تھیں۔
افشا ہونے والی معلومات میں مشرق وسطیٰ اور دوسرے ممالک کے سرکاری اہلکاروں کے بہت سے اکاؤنٹس شامل تھے۔ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح سرکاری افسران اور ان کے رشتہ داروں نے بدعنوانی کے ذریعے وسیع دولت جمع کی۔ مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کے بیٹوں علاء اور جمال مبارک کے مختلف مقامات پر کل چھ اکاؤنٹس تھے، جن میں سے ایک اکاؤنٹ کی مالیت 196 ملین ڈالر تھی۔
نیویارک ٹائمز کو دیے گئے ایک بیان میں، مبارک کے وکلاء نے ان اکاؤنٹس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا لیکن حسنی مبارک کے کسی بھی اثاثے کو غیر قانونی یا ناجائز اثر و رسوخ کا نتیجہ سمجھنے کو بے بنیاد اور ہتک آمیز قرار دیا۔ بیان میں کہا گیا تھا حسنی مبارک اور ان کے گھرانے کے اثاثے ان کی ‘کامیاب پیشہ ورانہ کاروباری سرگرمیو’ سے حاصل ہوئے۔ اردن کے شاہ عبداللہ دوم کے چھ اکاؤنٹس میں سے ایک کا بیلنس 224 ملین ڈالر سے زیادہ تھا۔
اردن کی رائل ہاشمی عدالت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بینک اکاؤنٹس کے سلسلے میں کوئی ‘غیر قانونی یا نامناسب سرگرمی’ نہیں ہوئی۔ ان کے پاس بادشاہ کی نجی دولت کا کچھ حصہ تھا، جو ذاتی اخراجات، شاہی منصوبوں کے لیے اردنی شہریوں کی مدد اور یروشلم میں اسلامی مقدس مقامات کی دیکھ بھال کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے والے کئی ممالک کے سینئر انٹیلی جنس حکام اور ان کی اولادوں نے بھی کریڈٹ سوئس میں رقم رکھی تھی۔
پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ کے طور پر، جنرل اختر عبدالرحمن خان نے سوویت یونین کے خلاف جنگ میں مدد کرنے کے لیے امریکہ اور دیگر ممالک سے افغانستان میں مجاہدین کو اربوں ڈالر کی نقد رقم اور دیگر امداد فراہم کی۔ 1985 میں صدر رونالڈ ریگن نے افغانستان جانے والی امداد کی نگرانی بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اسی برس جنرل اختر عبدالرحمن کے تین بیٹوں کے نام پر ایک اکاؤنٹ کھولا گیا۔ جنرل کو کبھی امدادی رقم چوری کرنے کے الزامات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ جنرل اختر عبدالرحمن کے دو بیٹوں اکبر اور ہارون خان نے رپورٹنگ پراجیکٹ کو موقف نہیں دیا لیکن تیسرے بیٹے غازی خان نے ایک ٹیکسٹ میسیج میں کہا ‘یہ درست نہیں، یہ مواد قیاس آرائی پر مبنی ہے’۔
مسٹر مبارک کے طویل مدتی ساتھی اور سفاک جاسوس، عمر سلیمان کے خاندان کا بھی ایک اکاؤنٹ ملا ہے۔ مسٹر سلیمان کا انتقال 2012 میں ہوا۔ ان کے خاندان سے رابطے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔
نیویارک ٹائمز نے جنرل اختر عبدالرحمن کے بیٹوں کے اکاؤنٹ کی خبر دیتے ہوئے لکھا ہے کہ
Senior intelligence officials and their offspring from several countries that cooperated with the United States in the war on terrorism also had money stashed at Credit Suisse.
As the head of the Pakistani intelligence agency, General Akhtar Abdur Rahman Khan helped funnel billions of dollars in cash and other aid from the United States and other countries to the mujahedeen in Afghanistan to support their fight against the Soviet Union.
In 1985, the same year President Ronald Reagan called for more oversight of the aid going into Afghanistan, an account was opened in the name of three of General Khan’s sons. (The general never faced charges of stealing aid money.) Years later, the account would grow to hold $3.7 million, the leaked records show.
Two of the general’s sons, Akbar and Haroon Khan, did not respond to requests for comment from the reporting project. In a text message, a third son, Ghazi Khan, called information about the accounts ‘not correct’, adding, ‘The content is conjectural’.