اسلام آباد: سپریم کورٹ میں صحافی ارشد شریف قتل کیس میں ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران عدالتی حکم پر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی گئی۔
صحافی ارشد شریف قتل کیس پرفیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ 592 صفحات پر مشتمل ہے۔ رپورٹ ڈی جی ایف آئی اے اور ڈی جی آئی بی کے دستخط کیساتھ جمع کرائی گئی ہے۔
قتل کیس میں فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں تہلکہ خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔ کمیٹی رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کو ایک منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا، کینیا پولیس نے تحقیقات میں کوئی معاونت نہیں کی کیس میں کئی غیر ملکی کرداروں کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کو گولی یا تو گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے ماری گئی یا پھر گاڑی کے اندر قریب سے ماری گئی ہے۔ ارشد شریف کو منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا، کینیا پولیس نے تحقیقات میں کوئی معاونت نہیں کی، کیس میں کئی غیر ملکی کرداروں اور ارشد کے میزبان خرم اور وقار کا کردار مشکوک قرار دیے گئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف کو 20 جون 2022 کو یو اے ای ویزے کا اجرا ہوا اور ویزہ 18 اگست 2022 تک کیلئے تھا۔ ارشد شریف کینیا گئے تو ان کے ویزے میں 20 دن باقی تھے اور ارشد شریف نے نئے ویزے کیلئے 12 اکتوبر 2022 کو دوبارہ رجوع کیا جبکہ ارشد شریف کی درخواست کو رد کردیا گیا۔
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں فائر کی جانیوالی گولیوں کی ٹریجکٹری کو بھی بیان کیا گیا، ارشد شریف کے سینے میں لگنے والی گولی ٹریجکٹری فائرنگ پیٹرن سے نہیں ملتی۔ ارشد شریف کو ایک گولی کمر کے اوپری حصے میں لگی۔ گولی گردن سے تقریباً 6 سے 8 انچ نیچے لگی جو سینے کی جانب سے باہر نکلی اور زخم سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ گولی قریب سے چلائی گئی۔ جس زاویے سے گولی چلی اس کے نتیجے میں گاڑی کی سیٹ میں بھی سوراخ ہونا چاہیے تھا۔ ارشد شریف شہید نے وقار احمد کے گیسٹ ہاؤس میں 2 ماہ 3 دن قیام کیا۔
رپورٹ کے مطابق وقار احمد کے کینین پولیس اور وہاں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے روابط ہیں،
وقار احمد کے کینیا کی نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی سے قریبی تعلقات ہیں۔
وقار کے مطابق حادثے کے بعد پولیس نے ارشد کا آئی فون، آئی پیڈ، وائلٹ، 2 یو ایس بیز حوالے کیں،
وقار احمد نے آئی فون اور آئی پیڈ نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی کے افسر کو دے دیا۔ ایک دن بعد پاکستانی ہائی کمیشن نے ایک افسر کو ارشد شریف کی چیزیں لینے کیلئے بھیجا گیا۔ اس نے این آئی ایس کے افسر کو کال کرکے بتایا، این آئی ایس کے افسر نے وقار کو پاکستانی ہائی کمیشن کو کسی بھی چیز کو تحویل میں لینے سے روکا، بعد ازاں ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر پوسٹ کا بندہ بھیجا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ہائی کمیشن افسروں کو اہم شواہد ملے، ہائی کمیشن افسروں کو 2 موبائل، ایک کمپیوٹر اور ارشد کی ایک ذاتی ڈائری ملی، ارشد شریف یہ چیزیں کینیا میں رہائش کے دوران استعمال کررہے تھے۔ وقار احمد سے پہلی 3 ملاقاتیں کافی مددگار ثابت ہوئیں۔
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے ارشد شریف کی رہائش گا دورہ کیا، دورے کے دوران ٹیم کو ارشد شریف کا پاسپورٹ ملا، یو ایس بیز، پاسپورٹ کی کمیشن کو حوا لگی پر سوال کا جواب تسلی بخش نہیں، وقار احمد نے پہلے سی سی ٹی وی فوٹیج دینے پہلے آمادگی ظاہر کی۔
رپورٹ کے مطابق وقار نے بعد میں فوٹیج دینے سے معذرت کرلی اور وقار احمد نے کہا فوٹیج لوکل اتھارٹیز کے حوالے نہیں کی گئی، وقار نے کہا وکیل اور بیوی نے فوٹیج نہ دینے کا مشورہ دیا ہے۔
فیکٹ فائنڈنگ کی رپورٹ میں وقار کے چھوٹے بھائی خرم کا بھی ذکر ہے، خرم کا کہنا تھا کہ وہ کھانے کے بعد ارشد شریف کو ساتھ لے کر نکلے گا، راستے میں انہیں سڑک پر پتھر نظر آئے جس پر خرم نے ارشد کو بتایا کہ یہ ڈاکو ہوں گے، جیسے سے سڑک پر پڑے پتھروں کو پار کیا تو انہیں گولیوں کی آواز سنائی دی، گولیاں کی آواز سنتے ہی وہ وہاں سے بھاگ گئے۔ خرم نے محسوس کیا ارشد شریف کو گولی لگی ہے، خرم نے اپنے بھائی وقار کو فون کیا اور فارم ہاؤس پر پہنچنے کا کہا، فارم ہاؤس 18 کلو میٹر دور تھا، فارم ہاؤس پہنچ کر خرم نے گاڑی کو گیٹ پر ہی چھوڑ دیا اور اندر بھاگ گیا، خرم کا کہنا ہے ارشد کی ہلاکت فارم ہاؤس کے گیٹ پر ہوئی، وقوعہ کی جگہ سے فارم ہاؤس تک خرم کے علم میں نہیں تھا کہ ارشد زندہ ہے یا نہیں، یہ ایک عجیب بات ہے کیونکہ ارشد کے سر میں گولی لگی تھی، جس زاویے پر خرم بیٹھا تھا اسے نظر آنا چاہیے تھا کہ ارشد بری طرح زخمی ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس سے متعلق فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں ارشد کے قتل بارے میں فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس پر ان سے 15 نومبر کو رابطہ کیا گیا، فیصل واوڈا سے ارشد شریف کے قتل سے متعلق شواہد طلب کیے گئے، اُن کی درخواست پر ٹیم نے انہیں 7 سوال تحریری طور پر دیئے، دوبارہ رابطے کی کوشش پر انہوں کو کوئی جواب نہیں دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 27 اکتوبر کو ارشد کے وکیل نے ایک سوال پر تحقیقاتی ٹیم کو بتایا آئی ایس پی آر ارشد کا دوسرا گھر تھا اور ارشد شریف بریگیڈیئر شفیق کے بہت قریب تھے، حکومت کی تبدیلی کے بعد ارشد شریف بریگیڈیئر شفیق سے اختلافات ہوگئے، وکیل نے بتایا ارشد شریف کیخلاف کچھ مقدمات بریگیڈیئر شفیق کے کہنے پر درج ہوئے۔