اسلام آباد: وفاقی ٹیکس محتسب (ایف ٹی او) مشتاق احمد سکھیرا نے ایف بی آر کو ہدایت کی ہے کہ وہ ٹیکس فراڈ کے مرتکب افراد کیخلاف بلاتاخیر کاروائی شروع کریں۔ وفاقی ٹیکس محتسب نے ایف بی آر کو مزید ہدایت کی ہے کہ جعلی رسیدات کے معاملات نمٹاتے ہوئے سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی دفعات 21 اورA 37 کے بشمول ،پاکستان پینل کوڈ کی متعلقہ دفعات کے اطلاق کو یقینی بنایا جا ئے۔
وفاقی ٹیکس محتسب کے از خود(Own Motion) نوٹس کے تحت ایف بی آر کی فیلڈ فارمیشنوں کے ذریعہ ہونے والی بےضابطگیوں کی تحقیقات کے دوران مشاہدہ میں آیا کہ جعلی سیلز ٹیکس انوائس جاری کرنے کے لئے فراڈ میں ملوث اداروں نے سیلز ٹیکس کی رجسٹریشن حاصل کی تاکہ دوسرے رجسٹرڈ افراد کو بوگس رقوم ریفنڈ ہوسکے اور اسکے علاوہ ٹیکس لائبلیٹی(tax liability) کو کم کیا جاسکے ۔
ایف ٹی او کے نوٹس پر متعلقہ محکمہ نے وضاحت دی کہ جعلی اور فلائنگ انوائس پر مبنی مشکوک ریفنڈز اور جعلی سیل ٹیکس کی رجسٹریشن کی اجراء کا معاملہ سال 2012 سے 2015 کے دوران غیر معمولی تھا تاہم اب ایسے معاملات سے نمٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کوششوں کو وفاقی ٹیکس محتسب نے “ناکافی اور نامکمل” قرار دیا ہے۔
ایف بی آر نے کسی بھی ایسی ٹیکس چوری کے معاملے میں جرمانہ اور تعزیراتی کارروائیوں کا آغاز نہیں کیا تاہم ایسے مجرمان کی صرف سیلز ٹیکس رجسٹریشن معطل بلیک لسٹ کردی۔ ایکٹ کے سیکشن 21 کے تحت اگر کوئی رجسٹرڈ فرد جعلی یا فلائنگ انوائس جاری کرنے کے جرم کا مرتکب ہو تو اسے بلاک کردیا جائے اور “مناسب قانونی کارروائی” کی جائے۔”مناسب قانونی کارروائی” سے مراد قطعاً یہ نہیں کہ کارروائی صرف ایکٹ کے تحت سزا یافتہ اقدامات تک ہی محدود رہے بلکہ اس میں ملک کے تعزیراتی قوانین کا اطلاق بھی شامل ہے جن کے استعمال سے جعلی دستاویزات کی تیاری اور اس طرح کی بے ایمانی اور فراڈ میں ملوث اداروں کا سدباب کیا جاسکے۔ لیکن اسکے برخلاف محکمہ نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعات پر زور دینے کے بجائے خود کو مزید ادائیگیوں کو روکنے اور رجسٹریشن کو معطل کرنے کی حد تک محدود رکھا ۔ یہ اقدامات یقینی طور پر نامکمل ہیں اور ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کے خلاف ایکٹ کی دفعہ 21 کی دفعات کےقطعی خلاف ہیں۔