پاکستانی ٹی وی اداکارہ حمیرا اصغر کیس کے حوالے سے سابق ایڈیشنل پولیس سرجن کراچی تحقیقات کی دی پاکستان کی اہم گفتگو

0
18

کراچی (رپورٹ: ایم جے کے) پاکستانی ٹی وی اداکارہ حمیرا اصغر کیس کے حوالے سے نمائندہ خصوصی دی پاکستان ماجد خان نے سابق ایڈیشنل پولیس سرجن کراچی سے ایم بی بی ایس، ڈی ایم جے، ایل ایل بی، ایڈوکیٹ ڈاکٹر شیراز علی خواجہ سے رابطہ کیا۔ ڈاکٹر شیراز علی خواجہ کراچی اسکول آف انویسٹیگیشن گارڈن میں کئی بار لیکچر بھی دے چکے ہیں، ان سے حمیرا اصغر کیس کے حوالے سے تفصیلی بات چیت کی گئی جس پر انہوں نے اپنے وسیع تر تجربے کی بنیاد پر میڈیکل پوائنٹ آف ویو سے مختلف کاز آف ڈیتھ کو بھی سامنے رکھ کے بتایا کہ ڈیڈ باڈی کے ایگزامینیشن کرکے مینر آف ڈیتھ معلوم کیا جا سکتا ہے کیونکہ باڈی ایڈوانس اسٹیج آف ڈیکمپوزیشن میں تھی، اس میں دماغ وغیرہ ڈی کمپوز ہو جاتے ہیں اور آرگن کے پیسز مائیکروسکوپ کے ذریعے کیمیکل یا مائیکروسکوپ کے ذریعے ان کا معائنہ کیا جاتا ہے، کیمیکل ٹیسٹ کرا کے زہر وغیرہ لیبارٹری میں معلوم کیے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر شیراز نے بتایا کہ دوسری اہم چیزیں ڈیڈ باڈی کی دل کی شریانوں کو چیک کرنا ہے، اُن میں کسی رکاوٹ وغیرہ کو دیکھا جاسکتا ہے، ہڈیوں سے اس کی عمر اور جنس کا پتہ چل جاتا ہے اور کوئی بیماری جیسے اوسٹیوپوروسس یا اوسٹیومائیلائٹس وغیرہ دیکھی جا سکتی ہے، ہڈی میں زہر، پانی یا نشہ وغیرہ معلوم کیا جا سکتا ہے اور ڈی این اے وغیرہ بھی لیا جا سکتا ہے، ہڈیوں سے مرے ہوئے بیکٹیریا، لاروا، جو ہڈیوں پر مر کے چپک جاتے ہیں، ان کی اینٹومولوجی ٹیسٹ کر کے اور ڈی این اے کر کے ٹائم سنس ڈیپ معلوم کیا جاتا ہے، ڈاکٹر نے مزید بتایا کہ اینٹھروپولوجی جسم کی ہڈیوں کی پیمائش کرکے اُس کا قد اور وزن، عمر کے ساتھ ہڈیوں کے ایکسرے وغیرہ میں کوئی فریکچر تو نہیں نوٹ کیا جاتا اور ہڈی پر کوئی گولی، چاقو یا ڈنڈا یا سریا اگر زور سے لگا ہو تو اس پر کٹ یا فریکچر یا سر فیس کا نشان، اگر گلا دبایا گیا ہے یا رسی سے پھندا لگا ہے تو گردن کی ہڈی سروائیکل بون یا ہائوڈ بون ٹوٹی ہوئی نظر آئے گی، اگر ہڈی پر کوئی بلڈ کلسٹر موجود ہے تو اس سے بلڈ گروپ وغیرہ کا پتہ چل جاتا ہے، اگر ہڈی کی کسی پيلوک بون میں کوئی اسٹرین موجود ہے تو اس کی سراناجی ٹیسٹ کی جاتی ہے ہڈیوں سے عمر کا تعین بھی کیا جاتا ہے، اگر کوئی فائرنگ کا کیس ہو تو ہڈی میں گولی کی اینٹری یا ایگزٹ دیکھی جاسکتی ہے۔

ڈاکٹر شیراز کہنا تھا کہ ڈی این اے سے ڈیڈ باڈی کی شناخت ہو جاتی ہے دانت سے عمر اور جنس کا تعین کیا جاتا ہے دانتوں میں کوئی بیماری وغیرہ چیک کی جاتی ہ، دانتوں میں زہر وغیرہ بھی تشخیص کیا جاتا ہے، باہر سے آدمی کی عمر، جنس، زہر کی تفتیش کی جاتی ہے اور ڈی این اے معلوم کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر شیراز علی خواجہ نے مزید بتایا کہ انویسٹیگیشن کے دوران “بلاونگ” مثلاً کپڑے، جوتے، چوڑیاں، گلاس، بلب، برتن، بیلٹ، شوز وغیرہ بھی قبضے میں لیے جاتے ہیں، کپڑوں سے چپکی ہوئی باڈی کی اسکن وغیرہ کو کیمیکل میں بھیجا جاتا ہے، کپڑے پر کٹ یا رگڑ کا نشان یا کوئی فائرنگ کا نشان ہو تو اس کا بھی معائنہ ہوتا ہے، باڈی کے مکمل ایکس رے کیے جاتے ہیں، اینٹومولوجی کے ذریعے جراثیم دیکھ کر ٹائم سنس اور زہر معلوم کیا جاتا ہے ، پولیس اپنی اینالیسس میں باڈی کی تمام بلاونگ اور دوسری چیزیں مثلاً پاؤڈر، زہر، انسیکٹی سائیڈ، پیسٹی سائیڈ، انجیکشن، میڈیسن، سرنج، ڈرپ وغیرہ جمع کرتی ہے اور فنگر پرنٹ، فٹ پرنٹ وغیرہ لیتی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص اندر آیا یا گیا، دروازہ، کھڑکی، لاک وغیرہ کو بہت اچھی طرح چیک کیا جاتا ہے۔

پولیس سینی آف کرائم سے سیمپل کلیکٹ کرے گی اور ایم ایل او اپنی طرف سے ایویڈنس جمع کرے گا پولیس انکوئسٹ بنا کر ایم ایل او کو دے گی اور ایم ایل او اس کا پوسٹ مارٹم کر کے پرویژنل رپورٹ ایشو کرے گا، جس میں اس رپورٹ کی بنیاد پر آنے والے سیمپل، ایکس رے رپورٹ، ڈی این اے، عمر، جنس، پاکستان میں میچ ہونا چاہیے اور فورنزک اینالیسس میں موت کا وقت معلوم ہونا چاہیے۔

ڈاکٹر شیراز علی خواجہ نے مزید بتایا کہ اگر کوئی ڈیڈ باڈی فریش ملتی ہے تو اُس کے بہت سارے پیرامیٹرز ہیں، مثلاً پیتھالوجی، ہسٹالوجی، بائیوکیمیکل رپورٹ ان سے وقتِ موت (ٹائم سنس ڈیتھ) کا پتہ چل جاتا ہے مگر پُرانی لاش میں وقتِ موت کا پتہ کرنے کے لیے کوئی خاص پیرامیٹرز نہیں ہوتے، البتہ ایم ایل او اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر اندازہ لگا لیتا ہے کہ باڈی کتنی پرانی ہے اگر باڈی پوری طرح اسکیلیٹنائزڈ ہو تو سمجھو کہ چار سے پانچ مہینے کا وقت ہوا ہے، مگر کبروں میں ڈی کمپوزیشن کا انڈیکس زیادہ ہوتا ہے اور اوپن ایئر میں کم اس طرح جو باقی ثبوت پولیس جمع کرتی ہے جیسے ڈیجیٹل فارنزک (مثلاً موبائل کا بند ہونا یا رسپانس نہ دینا)، اس سے بھی ٹائم سنس آف ڈیتھ معلوم ہو جاتا ہے، پولیس انکوئسٹ رپورٹ بناتے وقت اپنی آبزرویشن میں بھی لکھتی ہے کہ موت کی وجہ کیا ہے اور لاش کتنے دن پرانی ہے یا فوتگی کب ہوئی تھی، ایم ایل او بھی اپنی آبزرویشن اور تجربے سے وقتِ موت اور سببِ موت بتاتا ہے، مگر ڈیکمپوزڈ باڈی میں صحیح ٹائم سنس آف ڈیتھ نکالنا مشکل ہوتا ہے جدید سسٹم جیسے سیلز اور آر این اے کی سٹڈی اب مخصوص لیبارٹریز میں ہوتی ہے مگر عام طور پر یہ دستیاب نہیں ہوتی اسی سے وقت کا اندازہ ہو پاتا ہے اس میں موت کی تین وجوہات ہوتی ہیں: نیچرل، ان نیچرل یا ان ڈیٹرماینڈ (غیر متعین) نیچرل میں کئی بیماریاں ہوتی ہیں، مثلاً دل میں ایثریواسکلروسس (چربی کا جمع ہونا)، دل کی شریانوں کا سکڑنا، دل میں سوراخ، ہائی بلڈ پریشر، شوگر وغیرہ، جس سے سڈن ڈیتھ ہو سکتی ہے دیگر بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں جیسے تھرومبوسس (خون کٹنے کی وجہ سے شریان بند ہونا)، ایمبولزم (خون کا لوتھڑا یا ایئر ایمبولزم وغیرہ) سے اچانک موت ہو جاتی ہے، ان نیچرل ڈیتھ میں، مثلاً اسٹرینگیولیشن/تھروٹلنگ، چادر، تولیہ، تکیہ، ناخنوں کے نشانات وغیرہ دیکھے جاتے ہیں مگر ڈیکمپوزڈ لاش میں وہ چیزیں عام طور پر نظر نہیں آتیں فنگر پرنٹ، فٹ پرنٹ، ماؤتھ، گیسٹرک مواد، یا دیگر سیکریشن وغیرہ کپڑوں یا جلد میں اٹیچ ہو جاتی ہیں یہ سب زیرِ غور آنا چاہیے اگر کوئی خاص نیچرل یا اننیچرل وجہ نہیں ملتی تو پولیس سَرکمسٹینشل ایویڈنس پر اپنی تحقیقات جاری رکھتی ہے اور کورٹ میں رپورٹ دیتی رہتی ہے دیجٹل ایویڈنس، عینی شاہدین، فارنزک، پیتھالوجی، ریڈیالوجی، اینٹومولوجی، اینتھروپولوجی، مالیکیولر بائیولوجی وغیرہ سب شامل ہیں، کبھی کبھی زوالوجیکل ایویڈنس (مثلاً چوہا یا بلی وغیرہ کی باقیات) یا اور عناصر بھی دیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے، اگر وہ موجود ہوں بوٹانیکل (پودوں سے متعلق ثبوت) کم ہی ہوتے ہیں، سابقہ ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر شیراز نے مزید بتایا کہ جب تک لاش کی مکمل آبزرویشن نہ ہو جائے تحقیقات جاری رہنی چاہیے اور وجۂ موت معلوم کرنا لازمی ہے، والدین کا فرض ہے کہ اپنی بیٹی یا بیٹے کی خیر خبر رکھیں چاہے ناراضگی ہو والدین کو یہ حق نہیں کہ وہ خبر ہی نہ لیں اگر موت ہو جائے اور پتہ نہ چلے تو یہ معاشرتی طور پر بھی افسوسناک ہے، معاشرے کا بھی کردار ہوتا ہے کہ سب ایک دوسرے کی عزت، آزادی اور خیر خبر رکھیں، ڈاکٹر شیراز علی خواجہ نے مزید کہا کہ میں کچھ دن میں پولیس انویسٹیگیشن کے حوالے سے بھی تفصیلی تجزیہ کروں گا جو پولیس انویسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ کو انویسٹیگیشن کے دوران اپنے کام میں ضرور مدد ملے گی۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں