اسلام آباد ہائی کورٹ نے مشہور زمانہ پانامہ ججز کے سیاسی فیصلے کو کوڑے دان میں پھینک دیا

0
200

اسلام آباد (خالد حُسین تاج) اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کو باعزت بری کر دیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے مختصر فیصلہ میں کہا کہ نیب مریم نواز کے خلاف کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ہدایت پر سابق جج جسٹس اعجاز الاحسن کی نگرانی میں سنایا گیا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی کھڑکی سے باہر کوڑے دان میں پھینک دیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے مشہور زمانہ پانامہ ججز کے سیاسی فیصلے کو کوڑے دان میں پھینک کر مریم نواز شریف کو سرٹیفائیڈ صادق اور آمین قرار دیدیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے اہم ریمارکس دیے کہ نیب کی دستاویزات کی بنیاد پر سول کورٹ میں دعوی ڈگری نہیں ہوتا سزا تو دور کی بات ہے۔

چار سال قبل 10 جون 2018 میں جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل بینج کے حکم نامے کے تحت 10 جون کو کیس لگا کیس میں خواجہ حارث پیش ہوئے۔ جسٹس ثاقب نثار
‏اور اعجاز الحسن کیس کی سماعت کے لئے کورٹ روم نمبر ایک آئے تو بہت غصے میں تھے۔ کیس کے حوالے سے پوچھا کہ خواجہ حارث کو روسٹرم پر بلایا اور خواجہ حارث نے دلائل دیے میرے اور بھی بہت کیسز ہیں وہاں پر بھی پیش ہونا پڑتا ہے، جس پر جسٹس ثاقب نثار غصے میں آگئے اور کہا جو بھی ہو جائے نواز شریف کے خلاف ریفرنس
کا فیصلہ 25 جولائی 2018 کے الیکشن سے پہلے ہونا چاہئے۔ احتساب عدالت کے جج بشیر کو بھی حکم دیا کہ کچھ بھی ہو جائے بے شک ہفتے میں کیس کی سماعت 7 دن ہو جائے ہفتے اور اتور کو بھی کیس کی سماعت ہو، صبح سے لیکر رات تک کیس کی سماعت ہو، کیس کا فیصلہ 25 جولائی 2018 کے الیکشن سے پہلے ہونا چاہیے۔

جسٹس ثاقب نثار کے ریمارکس کے بعد ہفتے میں 6 دن کیس کی سماعت ہوئی اور الیکشن سے پہلے کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ فیصلے میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور مریم نواز کو سزا دے دی گئی۔

فیصلے کے بعد مذید باقی دو ریفرنس احتساب عدالت کے دوسرے جج ارشد ملک کی کورٹ میں چل رہے تھے، نومبر 2018 کو سپریم کورٹ کی طرف سے دیا گیا ٹائم فریم ختم ہوا تو جج ارشد ملک اضافی وقت کے لئے سپریم کورٹ میں درخواست لیکر پہنچ گئے۔ نومبر 2018 میں نواز شریف کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہائی مل چکی تھی۔

سپریم کورٹ میں کیس لگا اور خواجہ حارث کو بھی بلایا گیا، کیس کی سماعت شروع ہوئی تو جسٹس ثاقب نثار نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک مہینے کا ٹائم دے رہا ہوں دسمبر میں کیس کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ یہ ممکن نہیں، مجھے اور کیسوں میں بھی پیش ہونا ہے جس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ تو پھر آپ نے یہ کیس کیوں لیا؟ جواب میں خواجہ حارث نے کہا ٹھیک ہے میں اپنا وکالت نامہ واپس لیتا ہوں، نواز شریف کوئی اور وکیل کرے گا۔ جسٹس ثاقب نثار نے غصے میں کہا کہ آپ وکالت نامہ واپس نہیں لے سکتے، آپ نے وکالت نامہ واپس لیا تو دوسرا وکیل کیس کی تیاری کے لئے وقت مانگے گا، آپ کو ہی ہر حال میں پیش ہونا ہوگا اور دن رات کیس کی سماعت ہونی چاہیے، دسمبر میں کیس کا فیصلہ ہونا چاہئے۔ جسٹس ثاقب نثار نے جنوری میں ریٹائر ہونا تھا۔

جسٹس ثاقب نثار کے مرضی کے مطابق دسمبر 2018 میں کیس کا فیصلہ ہو گیا، فلیگ شپ
ریفرنس میں نواز شریف کو بری کیا اور العزیزیہ میں 7 سال کی سزا ہوئی۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں