پاکستانی زراعت پر جاگیرداروں کا شکنجہ اور ٹڈی دلوں کا دھاوا

0
179

تحریر: حسین رضا

جاگیرداری نظام کو جدید دنیا نے اٹھارہویں صدی کے صنعتی انقلاب کے بعد انسانی تہذیب و تمدن کی ترقی کی راہ میں ناسور سمجھا تھا۔ لیکن حضرت عمر فاروق(رض) نے ساتویں صدی میں جاگیرداری کی نفی میں “زمین کا اختیار اُسی کا ہوگا جو زمین کاشت کرے گا” کا اصول قائم کرکے بطور راشد خلیفہ جاگیرداری کو ناپسندیدہ قرار دے دیا تھا۔

شماریاتی زبان سے بچتے ہوئے، عام فہم زبان کے مطابق پاکستان میں، مجموعی طور پر کلُ قابلِ کاشت زرعی زمین اور کُل زیرِکاشت زرعی زمین کا 2/3 سے زائد رقبہ کل زراعت پیشہ آبادی کی 5 فیصد اقلیت کے پاس ہے، 95 فیصدی زراعت پیشہ آبادی کمی کمین ہے۔ یعنی “کام کرنے کے باوجود بھی کمینی ہے” اور جاگیردار منجی توڑی اور حرام خوری کی کمائی کھانے کے باوجود بھی وضع دار ہے۔

پاکستان میں زرعی پیشہ 5 فیصد خاندانوں کو یہ 2/3 زمینیں انگریز دور میں “دھرتی سے غداری اور کمپنی و تاجِ سے وفاداری” کے صلے میں ملی تھیں۔ سنٹرل پنجاب کی لاہور اور گوجرانوالہ ڈویژنز تو صنعتی عمل کی بدولت جاگیرداری کی لعنت سے نجات پاتے چلے آرہے ہیں۔ لیکن جی ٹی روڈ سے دور کا پنجاب، سرائیکی بیلٹ اور دیہی سندھ آج بھی جاگیرداری کی جکڑ میں ہے۔ بلوچستان اور پختونخوا کا مجھےعلم نہیں ہے۔ اگر پاکستان کا نام “جاگیرستان” رکھ دیا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔

یاد رہے کہ برصغیر کے عام مسلمان نے اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز علمائے کرام کی قیادت میں کسی “ہندو مسلم دو قومی نظریہ” کے لیے نہیں بلکہ “جاگیردار-مزارع کے دو قومی نظریے” پر کیا تھا۔ لیکن مسلمان جاگیرداروں نے دو دفعہ اِس ملک کو اپنی جاگیریں بچانے کے لیے دو لخت ہونے کے انجام پر پہنچایا تھا۔ پہلی بار 1947ء میں نہرو کی زرعی اصلاحات کے منشور کے خوف سے اور دوسری بار شیخ مجیب الرحمٰن کی زرعی اصلاحات کے منشور کے خوف سے۔ بٹوارے اور آزادی کے بعد پنڈت نہرو نے بھارت سے قانونی اور عملدرآمدی طور پر 1963ء تک جاگیرداری کا مکمل خاتمہ کردیا تھا۔ پاکستان سے علیحدگی کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن نے بھی رہی سہی جاگیرداری کی باقیات کا قلعہ قمع کردیا تھا۔ (آپ یوٹیوب میں شیخ مجیب الرحمٰن کا منشور اُنہی کی آواز میں سن سکتے ہیں اور گوگل سرچ سے شیخ مجیب الرحمٰن کی بنگلادیش میں زرعی اصلاحات بارے پڑھ سکتے ہیں۔

آزادی سے قبل کشمیر میں شیخ عبداللہ اور پاکستان میں 1970ء کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو دونوں جاگیرداری کے خلاف نجات دہندہ ہونے کے پہناوے میں ابھرے تھے۔ میری غیرمصدقہ معلومات کے مطابق سوات میں ملا فضل اللہ بھی اپنے ریڈیو سے خلافت/اقتدار الہیہ قائم کرنے اور شریعت نافذ کرنے کے بعد جاگیرداری ختم کرکے زرعی زمینیں مزارعین میں تقسیم کرنے کا وعدہ کیا کرتا تھا۔ یہ نکتہ میں نے کسی یوسفزئی صحافی کی طالبان پر ایک کتاب میں پڑھا تھا (وہ کتاب میں کراچی کے ایک صحافی کو دے چکا ہوں اس لیے مجھے کتاب اور مصنف کا نام زبانی یاد نہیں رہ سکا)۔

بھٹو صاحب نے تو جاگیرداروں کو ساتھ ملاکر جاگیرداری کے ہی خلاف لیپالوپی کی ایسی فیصلہ کن انقلابی لڑائی لڑی تھی کہ انہوں نے جاگیرداری کے سیاسی ایشو کو اُس وقت کی نسل اور آنے والی نسلوں کے ذہنوں سے ہی بھلا دیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب سرحد پار بھارت میں اندرا گاندھی نے سابق جاگیرداروں کا عارضی وظیفہ بھی ختم کردیا تھا۔ آج پاکستان کی نئی نسل کو بالخصوص شہروں کی 99.9% نسل کو پتا ہی نہیں کہ جاگیرداری نظام کیا بلا ہے؟ زرعی اصلاحات کیوں ضروری ہیں؟ جن دیہی سندھیوں اور جنوبی پنجابیوں کے لیے زرعی اصلاحات زندگی موت کا مسئلہ ہونا چاہیے اُنہیں “بھٹو زندہ ہے” اور سرائیکی صوبہ کی ٹرک کی بتی پیچھے لگادیا گیا ہے۔

آج کے دور میں، “بانیانِ پاکستان نے جاگیرداری کا خاتمہ کیوں نہیں کیا تھا؟” کی بجائے یہ بات ہونی چاہیے کہ آج جاگیرداری کا خاتمہ کیوں نہیں کیا جارہا؟

جاگیرداری نظام کی تباہ کاریاں کیا ہیں؟ اس کا جواب اِس تحریر میں صرف یہ ہے کہ پاکستان کے سماجی، سیاسی، اقتصادی، طبقاتی و مذہبی اور عالمی سیاست کے مسائل جاگیرداری نظام سے پھوٹ رہے ہیں۔ (اس کے لیے ایک الگ تحریر کی ضرورت ہے)۔

اگر ہم جاگیرداری کا خاتمہ چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ایسی خاکہ بندی کرنا ہوگی۔

‘قابلِ کاشت’ یا ‘زیرِ کاشت’ زرعی زمین کا “فی کس اکائی قطعہ آراضی” زیادہ سے زیادہ اتنا ہونا چاہیے کہ ایک شخص یا زیادہ سے زیادہ اُس کا گھرانہ کسی کو زمین پٹے پر دئیے بغیراور کسی سے زمین اور محنت کی شراکت پر شراکتداری کیئے بغیر، بطور روزگار کل وقتی بنیادی معاشی سرگرمی کے طور پر اُس زمین کو کاشت کرسکے۔

“فی کس اکائی قطعہ آراضی” کی حدبندی نہری، بارانی، زرخیزی اور منڈی سے دوری نزدیکی کے اشاریوں پر کی جائے۔

“فی کس اکائی قطعہ آراضی” ناقابلِ تقسیم، ناقابلِ غیر زرعی استعمال اور ناقابلِ موروثی انتقال ہونا چاہیے۔ اِس کی ملکیت سرکاری ہونی چاہیے اور اِسے استعمال کرنے کا حق صرف اُسے ہونا چاہیے جو سرکاری سبسڈیز کے بغیر اُسے اپنی مدد آپ کے تحت کاشت کرے۔ جب ایک کسان خاندان اُس زمین پر کاشتکاری ترک کردے تو وہ زمین واپس سرکار کی ملکیت میں چلی جائے اور ریاست وہ زمین ازسرنو اُس کسان کو دے جو زمین کاشت کرسکے۔

اس کے ساتھ ہی زرعی بینکوں سے کسانوں کو سبسڈیز کے بغیر آسان شرائط پر قرضے اور انشورس دی جائے۔ جب زمینوں کی حدبندیاں “فی کس اکائی قطعہ آراضی” کے بلاکوں میں ہوگی تو اُس سے ریاست کی زرعی ٹیکسز و محصولات کی مد میں آمدن بھی زیادہ ہوگی اور پانی چوری کے مسائل بھی کم کیئے جاسکیں گے۔

جب زمینوں کی حدبندیاں “فی کس اکائی قطعہ آراضی” کے بلاکوں میں ہوگی تو کسان اپنی مدد آپ کے تحت گائوں کی سطح پر کسان تنظیمیں بناکر مشترکہ اوزار رکھ کر بوائی سے کٹائی تک کے مراحل کو طے کرسکیں گے نیز موسمیاتی چیلنجز سے بھی نمٹنے کی زیادہ مستعد کوشش کرسکیں گے۔

اب پاکستان جیسے ملک میں جہاں ایک جاگیردار کے پاس 300 ایکڑ سے لے کر 10 ہزار ایکڑ سے زائد کی زرعی زمینیں ہوں جسے وہ مزارعوں سے کاشت کروارہے ہوں تو ایسے میں ٹڈی دل کا مقابلہ کرنے لیے بھی اُنہیں سرکار کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ جاگیردار اویس لغاری کو میڈیا پر صورتحال کی سنگینی کا ادراک کروانا پڑتا ہے اور وہ جاگیردار طبقہ جو ستر سالوں سے زرعی ٹیکس سے مستثنیٰ، زرعی اصلاحات سے بچا، مزارعین کی محنت کا استحصال کرتا آرہا ہے وہ اتنا خصی ہے کہ آج بھی سرکار کی طرف دیکھ رہا ہے۔

آج کے دن تک: تاریخی شعور، سماجی و سیاسی فہم و فراست اور اقتصادی تدبیروں نے جو آج کے دن تک کی جو “مرض تشخیصی” اور دوراندیشی حاصل کی ہے اُس کی روشنی کے مطابق “جاگیرداری کا خاتمہ کیے بغیر” پاکستان اگلے دو سو سال تک ایسا ہی رہے گا۔ پاکستان کی 60فیصد سے زائد کی دیہی آبادی کی 95فیصد سے زائد کی اکثریت اوورسیز کمائی کے بغیر کوئی ترقی نہیں کرسکے گی۔ جو ایک آدھ لائق طالبعلم کوئی افسر یا پروفیشنل بن جائے گا وہ بھی پیچھے مڑکر دیکھنے کے بجائے شہری ایلیٹ کا حصہ بن جائے گا۔

پاکستان میں، جاگیرداری نظام کے رہتے ہوئے جمہوریت کا، انسانی حقوق اور بنیادی حقوق کی قانونی ضمانت کے سوا کوئی خاص نفع نہیں ہے۔ اگر مارشل لا اور ملٹری سپرٰمیسی “بوٹ چاٹی” ہے تو پھر جاگیردار الیکٹ ایبلز کی ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں آنے جانے پر چلنے والی جمہوریت “کھسہ چاٹی” ہے۔ جب دونوں طرف چاٹوں چاٹی ہی کرنی ہے تو پھر ایسے میں عام شہری جسے اِس سسٹم سے کچھ نہیں ملا وہ ملک و قوم کا نہیں بلکہ اپنے خودغرضانہ مفادات کا سوچتا ہے اگر غریب بریانی کی پلیٹ پر بکتا ہے تو مڈل کلاسیا نوکری پر بکتا ہے۔

میرے نزدیک اوکاڑہ فارمز کے مزاعین کی تحریک کو بزورِ طاقت دبایا جانا اور اُن کے لیڈر مہر عبدالستار کو جیل میں ڈال کر نشانِ عبرت بنایا جانا، فوج سے زیادہ اِس پورے جاگیرداری نطام کا انتقامی ردعمل تھا کیونکہ جس دن اوکاڑہ کےمزارعین “مالکی یا موت” کی جنگ جیت گئے اُس دن سرائیکی بیلٹ اور دیہی سندھ کے جاگیرداروں کی باری بھی آجائے گی۔


جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں