کراچی: شہر کراچی کی کیمیکل فیکٹری میں آتشزدگی سے کم از کم 15 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ تاحال امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
فائر بریگیڈ حکام کا کہنا ہے کہ یہ آتشزدگی کا سنگین واقعہ ہے جس میں آگ نے فیکٹری کے گراؤنڈ اور فرسٹ فلور کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ 15 فائر ٹینڈرز نے آگ بجھانے کے عمل میں حصہ لیا اور اب عمارت کی کولنگ کا عمل جاری ہے۔
حکام کے مطابق فیکٹری میں آگ لگنے کی وجوہات کا ابھی پتہ نہیں چل سکا۔ فائربریگیڈ حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ دو منزلہ عمارت چاروں اطراف سے بند تھی، اسی لیے شاول کے ذریعے کھڑکیاں توڑ کر لاشوں کو نکالا گیا جبکہ مزدروں کے لواحقین کی ایک بڑی تعداد بھی فیکٹری کے سامنے موجود تھے۔
فائربریگیڈ حکام کے مطابق آگ کی اطلاع ملنے کے بعد 10 بج کر 10 منٹ پر اُن کی پہلی گاڑی فیکٹری کی جانب روانہ کی گئی تھی۔
دوسری جانب حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے 14 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ بیشتر افراد دم گھنٹے کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔
مرتضیٰ وہاب کے مطابق پہلے فلور پر 21 کے قریب مزدور کام کر رہے تھے اور فیکٹری سے فوری طور پر باہر نکلنے کا کوئی راستہ موجود نہیں تھا۔ آگ پر قابو پا لیا گیا ہے جبکہ پولیس اور فائر بریگیڈ حکام آگ کی وجوہات جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امدادی تنظیم چھیپا کے مطابق فیکڑی سے 15 لاشوں کو جناح ہسپتال کراچی پہنچایا گیا ہے۔ تمام لاشیں بری طرح جھلسی ہوئی ہیں جبکہ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اور کتنے لوگ فیکٹری میں موجود ہوں گے یا نہیں۔
جناح ہسپتال کراچی کی ترجمان ڈاکٹر صائمہ مشتاق کے مطابق ان کے پاس ابھی تک 14 لاشیں لائی گئی ہیں جبکہ ایک اور لاش کے حوالے سے اطلاعات ہیں کہ وہ بھی پہنچائی جارہی ہے۔ تمام لاشیں جلی ہوئی ہیں۔ جن کو مردہ خانے منتقل کر دیا گیا ہے۔ دو زخمی امدادی کارکن بھی لائے گئے ہیں، جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے۔ میڈیکل ٹیم لاشوں کی شناخت کے طریقہ کار کا جائزہ لے رہی ہے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق کسی بھی لاش کی شناخت نہیں ہوئی جبکہ اس واقعے میں دو بھائیوں کی مبینہ طور پر ہلاکت کی اطلاعات بھی ہیں۔ جناح ہسپتال میں ان بھائیوں کے لواحقین اور والدہ موجود ہیں۔ ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’میں نے ایک نظر لاشوں کو دیکھا ہے، مجھے کچھ نہیں پتا چل رہا کہ میرے بیٹوں کی لاشیں کون سی ہیں۔ میں نے تو اپنے بیٹوں کو مزدوری کے لیے بھیجا تھا۔ ان کو جل کر مرنے کے لیے نہیں بھیجا تھا۔
ایک اور مزدور کے بھائی راشد کا کہنا تھا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ لاشیں جلی ہوئی ہیں اور ان کی شناخت ممکن نہیں۔ ہم نے ڈاکٹروں سے کہا ہے کہ ڈی این اے کر لیں، کچھ کر لیں۔ ہمارے لوگ تو مر چکے ہیں۔ اب ہمیں لاشیں دے دیں کہ ہم ان کی تدفین کر سکیں۔
ایک عینی شاہد کا کہنا ہے کہ وہ آگ والی جگہ سے گزر کر گئے اور سامنے چائے پی رہے تھے کہ پیچھے سے لڑکوں نے آواز لگائی کہ آگ لگ گئی ہے جس کے بعد وہ اٹھ کر بھاگے۔چھوٹی آگ تھی، آگ بجھانے والے آلے سے بجھانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ بجھی نہیں۔
عینی شاہد کے مطابق فیکٹری میں چالیس سے پینتالیس افراد کام کرتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مالک کے کہنے پر ایمرجنسی گیٹ پر تالا لگایا گیا تھا۔
یاد رہے کہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں ماضی میں بھی ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ ستمبر 2012 میں کراچی کے علاقے بلدیہ میں واقع علی انٹرپرائیز فیکٹری میں آتشزدگی میں ڈھائی سو سے زائد مزدو ہلاک ہوئے تھے۔
وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سید مراد علی شاہ نے کورنگی میں واقع فیکٹری میں آگ لگنے کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر کراچی اور لیبر ڈیپارٹمنٹ سے رپورٹس طلب کر لی ہے۔ اعلامیے کے مطابق وزیراعلیٰ نے اس واقعے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے ہلاک ہونے والے مزدوروں کے خاندان کی بھرپور مدد کرنے کی ہدایت اور زخمیوں کا حکومتی خرچ پر علاج کروانے کی ہدایات بھی جاری کی ہیں۔
پولیس ترجمان کے مطابق وہ اس وقت امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں اور ایف آئی آر کے لیے تحقیقات اور شواہد کا جائزہ لیا جا رہا ہے
کراچی میں آگ لگنے کے سیکڑوں واقعات ہونے کے باوجود فیکٹریوں میں سیفٹی کے انتظامات نہ ہونا بھی ایک سوالیہ نشان ہے اگر سیفٹی کے انتظامات ہوتے تو اتنا بڑا سانحہ پیش نہ آتا۔