منفرد ادیب و شاعر محمد واصل عثمانیاسلامیہ کالج کراچی میں اکائونٹنگ کے پروفیسر، شعری مجموعے سمیت متعدد کتابوں کے مصنف، ڈاکٹر غنی الاکرام نے واصل عثمانی کی سوانح عمری شائع کی

0
25

تحریر: مقبول خان

منفرد ادیب و شاعر اور استاد علامہ محمد واصل عثمانی دبستان کراچی کے ادبی افق پر ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ادیب و شاعر کے طور پر واصل عثمانی کی شہرت نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت، اور امریکا کے ادبی حلقوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ وہ 3 جولائی 1933 کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر الہ ٰآباد کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، یہ اپنے وقت کے معروف اور مستند شاعر وحید الہ آبادی کے پوتے ہیں۔ واصل عثمانی نے تعلیمی مراحل الہ آباد ہی میں طے کئے۔ واصل عثمانی کو بچپن ہی سے شاعری اور نثر نگاری سے لگائو تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر غنی الاکرام سبزواری نے محمد واصل عثمانی (سرگذشت) کے نام سے ان کی سوانح عمری شائع کی ہے۔ اس کتاب میں غنی الاکرام نے جناب واصل عثمانی کی زندگی، ان کی ادبی خدمات، شخصیت کے مختلف پہلوئوں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ شاعر و ادیب ہونے کے ساتھ واصل عثمانی جز وقتی طور پر شعبہ تدریس سے بھی وابستہ رہے۔ وہ کئی سال اسلامیہ کالج کراچی سمیت متعدد کالجوں میں اکائونٹنگ کے پروفیسر رہے۔ مجھ سمیت کراچی اور ملک کے دیگر شہروں اور بیرون ملک ان کے سیکڑوں شاگرد اب بھی موجود ہیں، جنہوں نے جناب واصل عثمانی سے اکائونٹنگ سمیت نثری اور شعری ادب میں شرف تلمذ حاصل کیا۔ شاعری میں واصل عثمانی کو اردو زبان کے مایہ ناز غزل گو شاعر، نثر نگار اور براڈ کاسٹر، تابش دہلوی کا شاگرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے تابش دہلوی اور ان کا طرزِ اصلاح کے عنوان سے ایک مضمون، جو کہ روز نامہ جنگ کے سنڈے ایڈیشن میں شائع ہوا تھا، اس میں خود کو تابش دہلوی کا شا گرد ہونے کا اعتراف فخریہ انداز میں بیان کیا ہے۔

مذکورہ بالا مضمون میں واصل عثمانی لکھتے ہیں کہ راقم کو ان کا ایک ادنیٰ شاگرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کی برسی کی مناسبت سے یہ مضمون ”’تابش دہلوی اور ان کا طرزِ اصلاح’ کے عنوان سے تحریر کیا ہے اس میں تابش صاحب کی اصلاح کے معیارات، پیمانوں کا کسی قدر احاطہ کیا گیا ہے۔واصل عثمانی مزید کہتے ہیں کہ مجھے علم ہے کہ حضرت تابش دہلوی نے کیسے کیسے خود ساختہ استادانِ شعر و غزل کو مشورے دیئے اور ان کے اشعار کو اپنی اصلاح سے اس قابل کردیا کہ اہلِ علم کی داد ِتحسین کے مستحق ٹھہرے۔ کہا جاتا ہے کہ واصل صاحب سے تابش دہلوی سے کی پہلی ملاقات 1956 میں حضرت حسنین زیبا ردولوی کے گھر پر ہوئی تھی۔ یہاں آرزو لکھنوی کی یاد میں مشاعرہ منعقد ہوا تھا۔ حسنین زیبا ردولوی نے میرے دادا حضرت وحید الٰہ آبادی، استاد اکبرالٰہ آبادی کے کلام کا انتخاب بابائے اردو مولوی عبدالحق کی ایما پر کیا تھا، جسے ‘انجمن ترقیِ اردو ہند’ نے 1938 میں شائع کیا۔ اسی حوالے اور نسبت سے وہ مجھ سے واقف تھے۔

واصل عثمانی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ تابش دہلوی سے حسنین زیبا کے دولت کدے پر ایک ادبی محفل میں، مَیں نے حضرت تابش دہلوی سے درخواست کی کہ ‘مَیں الٰہ آباد کار رہنے والا ہوں، شعرو سخن سے شغف رکھتا ہوں اور اپنے کلام کو قابلِ اصلاح تصوّر کرتا ہوں’۔ جواباً حضرت تابش دہلوی نے بڑے شفیق لہجے میں اتوار کی صبح دس بجے اپنے مکان، واقع جہانگیر روڈ آنے کی دعوت دی۔ گھر پر پہلی ملاقات میں تعارف اور رسمی بات چیت کے بعد مَیں ہر اتوار کو صبح دس بجے حضرت تابش دہلوی کے یہاں پابندی سے حاضر ہونے لگا۔ اس دوران حضرت تابش دہلوی کی شاعری، متانت، سنجیدگی اور رکھ رکھائو سے بے حد متاثر ہوا۔ مجھے ان کی سرپرستی و رہنمائی میں علم و ادب کے بڑے دقیق و نازک نکتے سمجھنے اور برتنے کا گُر حاصل ہوا۔ کراچی میں اپنے قیام کے دوران 1956 سے 1978 تک ان کی سرپرستی میں معروف شاعر و ادیب، فضل احمد کریم فضلی، ڈاکٹر انعام الحق اور یاور عباس کے دولت کدے پر منعقد ہونے والے ماہانہ مشاعروں کے علاوہ دیگر علمی وادبی انجمنوں میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔ واصل عثمانی صاحب کہتے ہیں کہ تابش دہلوی ہی کی وساطت سے مجھے خلقِ مجسّم استاد ڈاکٹر اسلم فرخّی سے نیاز مندی کا شرف حاصل ہوا، جن کی محبتوں اور عنایات کے بوجھ تلے آج تک دبا ہوا ہوں۔ واصل عثمانی صاحب کے مطابق تابش دہلوی کی اصلاحِ اشعار کا معیار انتہائی سخت تھا اور ان کے اِسی سخت اور شدید اندازِ گرفت سے سہل پسند طبائع کے اکثر شعراء ان کے دائرہ اصلاح سے نکل جانے ہی میں عافیت سمجھتے تھے۔ مناسب الفاظ اور ان کے موزوں استعمال پر تابش صاحب کی بڑی گہری توجّہ ہوتی تھی۔ تابش صاحب کی رہنمائی اور سرپرستی جنہیں نصیب ہوئی، وہ خوش قسمت ہیں کہ انھیں الفاظ کے صحیح استعمال اور ان کے معنی و مطالب کے تمام رموز سے واقفیت و آگہی کے بعد اپنے کلام کو سخن سے بچا کر شعر کرنے کا سلیقہ آگیا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ سیدھے سادے لفظ زیادہ تاثیر پیدا کرتے ہیں ،جہاں خیال ارفع ہوں، وہاں دقیق الفاظ لانا مجبوری ہوتی ہے۔ کوشش کیا کریں کہ آپ کے مضامین میں بھی اپنے مضامین ہوں۔ اِس سے شاعری میں ندرت پیدا ہوتی ہے۔

واصل عثمانی صاحب کم و بیش بارہ سال جناب تابش دہلوی کے شاگرد رہے۔ پھر انہوں نے دوسری ہجرت کی، اور پاکستان سے امریکا چلے گئے۔ جہاں وہ 90 سال کی عمر میں 27ستمبر 2023 کو اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ جناب واصل عثمانی کی شعری و نثری تصانیف کی تعداد تین ہے۔ جن میں سخن وران قصبہ کاکڑا 1978میں ایجو کیشنل پریس کراچی نے شائع کی، سب سخن میرے 1998 میں فضلی سنز نے شائع کی تھی، یہ ان کا پہلا اور شاید آخری شعری مجموعہ ہے۔ جبکہ وحید العصر 2006 میں ایجو کیشنل پریس کراچی نے شائع کی تھی۔ واصل عثمانی کی ایک کتاب کا نام مولانا بنوری بھی بتایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف اخبارات اور ادبی و علمی جرائد میں ان کی ادبی نگارشات گاہے بگاہے شائع ہوتی رہی ہیں۔ لائبریری پروموشن بیورو کے تحت پروفیسر ڈاکٹر غنی الاکرام نے جناب واصل عثمانی کی سوانح عمری محمد واصل عثمانی (سرگذشت) شائع کی ہے۔ یہ کتاب 140 صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں انہوں نے جناب واصل عثمانی کی زندگی، ان کی علمی و ادبی خدمات، اور شخصیت کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کیا ہے۔

جناب واصل عثمانی ایک مستند شاعر تھے، تاہم وہ روائتی طور پر مشاعرہ باز نہیں تھے۔ وہ معیاری ادبی و شعری نشستوں میں ضرور شرکت کیا کرتے تھے، ان کے اشعار میں کلسیکی رچائو کے ساتھ انسانی رویوں سے پیدا ہونے والے مسائل جابجا ملتے ہیں۔ ان کے چند اشعار زیل میںنذر قارئین کئے جاتے ہیں۔
میں بہت دور، بہت دور نکل آیا ہوں
میرے ماضی سے نہ اے دوست صدا دے مجھ کو
میں نے لوگوں کو نہ بتایا کس نے مجھے برباد کیا
لیکن میری خاموشی نے دہرایا ایک نام بہت
کس عہد میں بھیجا گیا ہوں یہ سوچ رہا ہوں
جس عہد میں ہر دم ہے سزا سو چتے رہنا

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں